تحریر: میر افسر امان
اب مغرب نے ہندوستان کی انتہا پسندی سے تنگ آ کر ہندو طالبان کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی دی ہے۔ اس سلسلے میں لندن کے اخبار دی گار جین نے اس پر سیر حاصل مضمون شائع کیا ہے۔ ہندو طالبان اور مشہور زمانہ طالبان میں کیا فرق ہے اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے طالبان لفظ پر بات ہو جائے۔ طالبان یعنی علم سیکھنے والاچاہے وہ ہندو ہو مسلمان ہو یا کسی اور مذہب کا ہو وہ طالبان ہے۔ مگر مشہوریہ کردیا گیا ہے کہ جو اسلامی دینی تعلیم سیکھتے ہیں وہ ہی طالبان ہیں انتہا پسند ہیں۔
پھر طالبان لفظ کو مسلمانوں کے لیے مخصوص کردیا گیاجو آج تک رائج ہے۔ اب ذرا مزید تشریع کرتے ہیں۔ ایک طالبان وہ ہیں جنہوں نے افغانستان میں امن قائم کیا تھا۔جب روس کی شکست کے بعد افغانستان میں وار لارڈ نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کیا تو ان کو میدان میں لایا گیا۔ ان طالبان نے افغانستان کے وارلارڈ سے اسلحہ واپس لیا پورے ملک میں امن و امان قائم کیاافیون کی کاشت کو ختم کیا۔ ملک میں اسلام کے شرعی نظام کے تحت اسلامی حکومت کا قیام اور ملا عمر کو شوریٰ نے امیر منتخب کیا وہ امیر المومنین کہلائے۔ عالم میں اسلام میں کچھ جزوی اختلاف کے علاوہ عمومی طور پر اسی ایک اسلامی حکومت مانا گیا۔
پھر جب بعد میں امریکا نے اُسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے طالبان سے کہا تو طالبان نے کہا کہ اُسامہ پر کوئی الزام ہے تو ہمیں بتایا جائے تاکہ اُس پر مقدمہ قائم کرکے اُسے سزا دی جائے۔ امریکا نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ا فغانستان پرحملہ کر دیا۔ افغان طالبان اب تک امریکا سے جنگ کی حالت میں ہیں اپنے ملک کو بیرونی قبضے سے نجات دلانے کے لیے جد دجہد کر رہے ہیںان کو انصاف پسند اور آزاد دنیا سلام کرتی ہے۔ پاکستان کے ڈکٹیٹر مشرف نے بغیر مشورے کے افغانستان کے خلاف ناٹوامریکا کی فوجوں کی لاجسٹک مدد کی ہوائی اور سمندری راستے امریکا کے حوالے کر دیے۔
امریکا نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کی مدد سے ایک اور پاکستانی طالبان پاکستان میں پیدا کئے گئے۔ پاکستان میں جو پاکستانی فوج کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں جن کے خلاف ضرب عضب جاری ہے۔ اس میں کچھ کاروائیاں بلیک واٹر اور مغربی خفیہ ایجنسیاں بھی کرتی ہیں جنہیں پاکستانی طالبان اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔ کیونکہ طالبان دہشت گردی کرتے ہیں انتہا پسند ہیں اس لیے دنیا اور پاکستانی ان سے نفرت کرتے ہے بلکہ ایک طبقہ انہیں ظالمان بھی کہتا ہے۔ اب بھارتی طالبان کی بات کرتے ہیں جو پاکستانی طالبان سے مختلف نہیںہیں بلکہ اِن جیسے ہی ہیں وہ بھی ظالمان ہیں۔ اگر بھارت کی دہشت گردی پر بات کی جائے توہندوئوں میں دہشت گردی بہت پُرانی ہے تاریخی ہے۔
سب سے پہلے بھارت کی اصل آبادی کو دہشت گردی اور نفرت سے نیچ قوم یعنی شودر بنا دیا۔پھر بھارت میں آر ایس ایس جیسی دہشت گرد تنظیمیں بنیںجو اب تک بھارت کے پورے معاشرے اورخاص اقلیتں جن میں مسلمان،سکھ،عیسائی اور شامل ہیں حتہ کہ اس میں دلت اور نیپالی بھی شریک ہیں پر ظلم و ستم کرتی ہیں۔اسی لیے مودی کے دورہ لندن کے موقعے پر ان تمام مظلو موں نے مل کر لندن کی تاریخ کا سب سے بڑا مودی مخالفانہ احتجاج ریکارڈ کرایا۔اب ایک نیا طبقہ ہندو طالبان سامنے آیا ہے جو پاکستانی طالبان سے زیادہ انتہا پسند اور دہشت گرد ہے اس کے سربراہ مودی ہیں۔اگر ہندو طالبان پر غور کیا جائے جس میں آر ایس ایس شامل ہے تو یہ بات سامنے آتی کہ انہوں نے سمجھوتہ ایکپریس پر حملہ کرکے ساٹھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کر دیا۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اور بھی لاتعداد ظالمانہ کاروائیں ہوئیں جوآرایس ایس نے کیں ہیں۔ پرتشددہونے کی وجہ سے آ رایس ایس پر برصغیر میں برطانیہ دور میںبھی پابندی لگی تھی۔ یہ دہشت گرد تنظیم پرانی ہے مودی اس کے بنیادی پرجوش ممبر ہیں۔اسی دہشت گرد تنظیم اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے مودی کی حمایت اس بنیاد پر کی تھی کی جیت جانے کے بعد بھارت میں ہندو ئوں کا متحصبانہ نظام راج قائم کرے گا جسے وہ ہندواتا کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے مودی نے آر ایس ایس کی دہشت گرد کاروائیوں پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اسی اشیرآباد پر بھارت میں انتہا پسندوں کا راج ہے۔ہندو طالبان نے انسانی حقوق کی پامالی کر رہے ہیں۔
سیکولر بھارت جس میں آئینی طور پر سب اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو تسلیم کیا ہوا ہے مگرانتہا پسند تنظیموں نے اقلیتوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔سب سے بڑی اقلیت جو بائیس سے پچیس کروڑ کی تعداد میں ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں ان کی بنیادی خوراک ہے اس پر پابندی لگا کر بھارتی متعصب صدر نے بل پر دستخط کر دیے ہیں اور بنیادی حق خوراک پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔آر ایس ایس نے گائے کے چمڑے کے کارخانے پر بھی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے شہر ورانسی میں ایک روسی خاتون پر تیزاب پھینک دیا گیا ہے۔ اس سے قبل کئی دفعہ عیسائی راہبوں کے ساتھ بُرا سوک کیا گیا ان کی عبادت گاہ کو جلا دیا گیا۔
سکھوں کے گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کی تھی۔ اب گرنتھ کے نسخے جلا دیے گئے ہیں۔ کشمیر کے ظلم وستم تو ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ انتہا پسند مودی طالبان ان حرکتوں سے اپنے لوگوں کو روکتے نہیں۔ بھارت میں ایک کتاب کی رونمائی کے موقعہ پر بھارت کے جھنڈے والے لباس کلکرنی کی منہ پر پاکستان دشمنی میں کالک مل دی۔ کرکٹ والوں کو بلا کر بے عزت کر کے واپس کر دیا۔ غزل گانے والے پاکستانی کو بھارت میں پروگرام کرنے سے روک دیا۔ اسی لیے بھارت کے سیکولر ذہن لا تعداد لکھاری، فلم ساز،اداکار اور انسانی حقوق کے لوگ بھارت حکومت کی طرف سے دیے گئے اعزازات واپس کر رہے ہیں۔
جہاں تک بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی تاریخی عبادت گاہ بابری مسجد کو بھارتی انتہا پسندوں نے بے دردی سے شہید کر دیا اس کے احتجاج کرنے پر سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیاسینکڑوں مسلم خواتین کی آبروزیزی کی گئی۔تقسیم ہند کے وقت لاکھوں مسلمانوں کو انہی انتہا پسندوں نے تہہ تیخ کیا تھا اس کے بعد بھی مختلف بہانوں سے ہنگامے کر واکر مسلمانوں کے کاروبار جلا کر راکھ کر دیے۔بھارت کے سادھوں پراچی نے ہندوئوں کو کہا کہ وہ شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان کی فلمیں نہ دیکھیںان کے فوٹو والے پوسٹرگھروںسے پھاڑدیںکیونکہ یہ حال کے محمودغزنوی ہیں۔ہندوطالبان میںمسلمان دشمنی پہلے سے موجود ہے۔مسلمانوںنے ہندوئوں پرایک ہزار سال دور حکومت میںکوئی زیادتی نہیں کی نہ ان کو ذبردستی مسلمان بنایا تھا۔
مسلمان حکمرانوں کی مشیروں میں ہمیشہ ہندو شامل رہے جس مسلمان بادشاہ اورنگ زیب کو ہند اپنا دشمن سمجھتے ہیں اس کے دربار میں بھی تیس فی صد مشیرہندو تھے۔یہ ہے مسلمان حکمرانوں کی فراغ دلی تھی اور ہندو مذہب کا احترام۔ اگر ہندو اپنی آزاد رائے سے مسلمان بنے تو مسلمانوں کی فراغ دلی سے بنے۔ جبکہ ہندوئوں نے شدھی اور سنگٹھن کی تحریکیں بھی مسلمانوں کو ذبردستی ہندو بنانے کے لیے شروع کی تھی۔ اب بھی گھر واپسی اسکیم چلا کر مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم چلا رکھی ہے۔قارئین!اسی تنگ نذری اور انتہا پسندی کی وجہ سے بھارت کے انتہا پسندوں کو ہندو طالبان کا لقب ملا ہے جو بھارت کے تباہی کی طرف ایک قدم ہے۔
بھارت میں آزادی اورحقوق کے لیے تقریباً تیس سے زائد تحریکیں چل رہی ہیں اگر ان کو ان کے جائز حقوق نہ دیے گئے اور بھارتی طالبان نے اپنا انتہا پسندانہ، ظالمانہ اور برہمنوں والاتکبرانہ رویہ نہ بدلا تو جو ایک نہ ایک دن ایک ایک کر کے یہ آزادی کی ٹھریکیںبھارت سے یہ علیحدہ ہو جائیں گیں اور تاریخ کایہی سبق ہے کہ باقی بچا کچا بھارت پھر ہزاروں راجوڑوں میں تقسیم ہو جائے گا اور کسی مسلمانوں بادشاہوں کی طرح بہتر اخلاق کی قوم کو ہندوئوں پر حکمرانی کرنے سے کوئی بھی نہ روک سکے گا۔
تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد سی سی پی