جب سے ہندوستان میں بھارتیا جنتا پارٹی بر سر اقتدار آئی ہے، سابق مسلم حکمرانون کو نفرت کا نشانہ بنانے کا منظم سلسلہ جاری ہے۔ اورنگ زیب کے بعد ٹیپو سلطان کو جابر سلطان قرار دیا گیا اور یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار پر ہزاروں ہندووں کا قتل عام کیا تھا۔ اور اب اچانک بانی پاکستان محمد علی جناح کے خلاف نفرت کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے۔ پچھلے دنوں بھاریتا جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے اصطبل کی تنظیموں اکھل بھارتیا ودیارتی پریشد اور ہندو یوا و واہنی کے کارکنوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر دھاوا بول دیا اور اسٹوڈنٹس یونین ہال میں پچھلے اسی برس سے آویزاں محمد علی جناح کی تصویر پر ہنگامہ برپا کر دیا۔ یہ تصویر اُس وقت سے آویزاں تھی جب جناح صاحب کو اسٹوڈنٹس یونین کا اعزازی ممبر بنایا گیا تھا۔ اب یہ تصویر پر اسرار طور پر غائب ہو گئی ہے۔
ہندوتا کے ان جنونیوں کے علی گڑھ یونیورسٹی پر دھاوے کی مذمت کرنے کے بجائے جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ اور اتر پردیش کے یوگی وزیر اعلی ادھتیا ناتھ نے کہا ہے کہ محمد علی جناح کو ہندوستان میں کوئی اعزاز نہیں دیا جاسکتا جنہوں نے ملک کا بٹوارہ کیا تھا۔
لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے ستر سال بعد اچانک بانی پاکستان کے خلاف نفرت کی یہ آگ کیوں بھڑکی ہے؟
جو کچھ بھی ہو، ہندوتا کے یہ جنونی یہ ثابت کرنے کے در پے ہیں کہ 1930ء میں محمد علی جناح نے جن خطرات کا اظہار کیا تھا وہ اس میں صحیح تھے۔ اُس وقت جناح صاحب نے کہا تھا کہ ہندوستان میں انتخابی سیاست، مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے مستقل اقلیت میں تبدیل کردے گی۔ اور ان کے مذہبی تشخص کی بناء پر وہ ہمیشہ کے لئے اقتدار سے محروم ہو جائیں گے۔
آخر یہی محمد علی جناح تھے جنہوں نے اپنا سیاسی سفر ء کانگریس سے شروع کیا تھا۔ یہی جناح صاحب تھے جنہوں لکھنو میں ایک پکے کانگریسی کی حیثیت سے مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان معاہدہ کی حمایت کی تھی۔ اور 1920ء میں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے بارے میں گاندھی کی حکمت عملی کی پُرزور مخالفت کی تھی اور جب جناح صاحب اس کوشش میں ناکام رہے تو انہوں نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس کے باوجود جناح صاحب نے ہندو مسلم اتحاد کی پُرزور حمایت جاری رکھی اور 1928ء میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ برطانوی راج اگر، مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نشستیں مخصوص کر دے تو مسلمان، جدا گانہ انتخاب کا مطالبہ ترک کردیں گے۔ ہندوستان کی سیاست کے لئے یہ انقلابی تجویز تھی جو کانگریس نے ٹھکرا دی۔ اُس وقت ہندوستان کے لبرل سیاست دان تیج بہادر سپرو نے خبردار کیا تھا کہ کانگریس کے اس اقدام سے ہندوستان کی سیاست کو جو سخت نقصان پہنچے گا وہ ایک چوتھائی صدی تک اس سے نجات نہ پا سکے گی۔
پھر 1937ء میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے اس میں کانگریس کو مدراس، یوپی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ سرحد اور بمبئی میں کانگریس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومتیں تشکیل دیں۔ سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے، عددی اکثریت کی بنیاد پر کانگیرس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس دوران کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سرشار تھی ایسے اقدامت کیے جن کے مسلمانوں کے دِلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گائو کشی پر پابندی عائد کر دی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دیدی۔
محمد علی جناح نے انتخابی سیاست کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اقتدار سے علیحدگی کے بارے میں جو وارننگ دی تھی، وہ 1937ء کے انتخابات کے بعد صحیح ثابت ہوتی نظر آتی تھی۔ ان انتخابات کے بعد کے حالات کی بناء پر جناح صاحب بلا تا مل اس نتیجہ پر پہنچے کہ کانگریس جمہوری اکثریت کی بنیاد پر بر سر اقتدار نہیں آئی بلکہ مستقل ہندو اکثریت کے بل پر یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے اور یہ اکثریت ایسی ہے کہ جسے کسی جمہوری طریقہ سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جناح صاحب کی یہ رائے تھی کہ یوں ہندوستان میں مستقل ہندو اکثریت اور مستقل مسلم اقلیت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔
اور آخر کار یہی تلخ حقیقت تھی جس کے نتیجے میں دو قومی نظریہ سامنے آیا اورپھر 1940ء کی قرارداد لاہور قیام پاکستان کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ اور در اصل اسی تلخ حقیقت کی وجہ سے محمد علی جناح نے منقسم پنجاب اور منقسم بنگال پر مشتمل پاکستان قبول کیا جسے انہوں نے ” کرم خوردہ پاکستان” قرار دیا تھا۔
آج ہندوتا کے جنونیوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی جو کسمپرسی کی حالت ہے اس کے پیش نظر محمد علی جناح کی یہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوگئی ہے کہ اگر مسلمانوں کو ان کا الگ وطن نہ ملا تو ہندوستان میں مسلمان مستقل اقلیت بن جائیں گے اور اقتدار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں رہے گا۔
اس وقت ہندوستان میں عالم یہ ہے کہ 545 اراکین کی لوک سبھا میں صرف 22 مسلم اراکین ہیں۔ گذشتہ پچیس برس میں ہندوستان کی 14 ریاستوں میں سے ایک بھی مسلمان لوک سبھا کا ممبر منتخب نہیں ہو سکا ہے۔ نریندر مودی کی ریاست گجرات میں مسلمانوں کی تعداد 9.7 فی صد ہے لیکن ریاستی اسمبلی کی 182 نشستوں میں سے صرف 3 مسلمان ممبر ہیں۔ بھارتیا جنتا کے اس دور میں مسلمان ہر سطح پر اقتدار سے محروم ہیں۔
آج ہندوتا کے جنونی نفرت کی آگ میں بھسم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس یونین ہال میں یہ کہہ کر محمد علی جناح کی تصویر اتارنے کے لئے دھاوا بول رہے ہیں کہ محمد علی جناح نے ملک کو تقسیم کیا تھا۔ کوئی ان کو یہ بتانے کی ہمت کر سکتا ہے کہ محمد علی جناح کو تقسیم ہند کا دوشی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ تقسیم کا بیج تو خود ہندوستان کی ہندو اکثریت کے قیادت نے بویا تھا۔ اور آج ہندوتا کے جنونیوں نے جس طرح ہندوستان میں، ہندو اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں کو راندہ درگاہ بنادیا ہے اور ان پر اقتدار کے تمام دروازے بند کر دئے ہیں اس سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ درست تھا اور اس کی بنیاد پر وہ ہندوستان کی تقسیم میں حق بجانب تھے۔