تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
گزشتہ دِنوں جب دنیا ہیروشیماپر گرائے گئے ایٹم بم سے ہونے والی صدی کی سب سے بڑی ہلاکتوں کی سترویں یادمنا رہی تھی تو اِس دوران مجھے خطے ء جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی ایک ایٹمی قوت بھارت کے پاگل پن پر بہت ترس آرہاتھااور میں اِسی خوف وہراس میں مبتلارہاکہ خاکمِ بدہن اگراِس خطے میں بھی کسی کی وجہ سے ہیروشیماجیسی کوئی کہانی دہرادی گئی تو یقینادنیا ہیروشیماکو بھول جائے گی اور جب تک یہ دنیاقائم رہے گی اِس خطے میں بھارتی جنگی جنون کی وجہ سے گرائے جانے والے ایٹم بم سے ہونے والی تباہ کاریوں کو ہی یادرکھ کر عبرت پکڑتی رہے گی یہ بات میں اِس لئے کہہ رہاہوں کہ آج خطے میں جنگی جنون میں مبتلابھارت کے پاس جواور جتنے بھی ایٹمی ہتھیاراور ایٹم بم موجودہیں وہ ہیروشیماپر گرائے گئے ایٹم بم سے کئی گنازیادہ جدیداور طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ کروڑوں اور اربوں انسانوں کی ہلاکتوں کا سبب بننے کے علاوہ خطے سمیت اردگردکے بیشترممالک کے لوگوں کی کئی نسلوں پر کئی صدیوں تک اپنے مضراثرات مرتب کرتے رہیں گے۔
اِس سے انکارنہیں ہے کہ اِدھرجنوبی ایشیا میں جنگی جنون میں مبتلابھارت اپنی تمام ہٹ دھرمیوں کے ریکارڈتوڑتے ہوئے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی ضد میں گھناؤنے عزائم کی تکمیل میں مصروف عمل ہے اگرآج بھارت کے اِس جنگی جنون کو لگام نہ دی گئی تو آگے چل کر بھارت کا یہی جنگی جنون سارے خطے کو آگ و خون کی وادی میں تبدیل کرسکتاہے جاِس کے جنگی اُدھر بھارتی پنجاب کے شہرگورداسپورمیں بس اور تھانے پر ایس پی سمیت 11ہلاکتوں کے بعدانڈین ویزرداخلہ اور وزیراعلی نے بغیرسوچے سمجھے اور تحقیقات کئے بغیر تُرنت الزام پاکستان پر لگادیانہ صرف یہ بلکہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری انوراگ ٹھاکرنے بھی کواکان لے گیاکواکان لے گیا کاشورمچاتے ہوئے فوراََ ہی گورداسپورمیں دہشت گردی کے باعث پاکستان بھارت کرکٹ سیریزمنسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ ڈھنڈوراپیٹ ڈالاکہ ” موجودہ صورتحال میں پاکستان سے کرکٹ سیریز نہیں کھیلی جاسکتی ہے۔
اِس کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہناتھاکہ ”پاکستان کو جانناچاہیے کہ ہماری قومی سلامتی اور امن متاثرہوگاتوکرکٹ نہیں ہوگی”جس پر پاکستان کا موقف یہ ہے کہ بغیر تحقیقات کئے ذرازراسے وقعات کا الزام پاکستان پر لگاناجیسابھارتیوں کی مجبوری اور مشغلہ ہے اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے خاطر ہر واقعے کو جواز بناکر پاکستان سے جاری مذاکراتی عمل اور دیگرمعاملات میں جاری خیرسگالی کے تعلقات سے ناطہ توڑنابھارتیوں کے لئے آسان ہوگیاہے بھارتیوں کی اِس حرکت پر دنیاکی نزدیک بھارتیوں کی مثال کسی نخرالومعشوقہ جیسی ہوگئی ہے جو اپنے عاشق سے اپنے نازک نخرے بہت اُٹھواتی ہے مگر جب اِس کا عاشق کوئی ایک نازک نخرانہ اُٹھائے تو وہ تُرنت روٹھ جاتی ہے اور جب یہ ناراضگی کچھ دنوں تک جاری رہتی ہے تو وہ اِس عرصے کے دوران خود کو کسی دوسرے عاشق کو اپنے جال میں پھنسالیتی ہے اور اِس کا پراناعاشق اِس سے ملنے آتاہے تو وہ اِسے اپنے بھائیوں اور نئے عاشق کے ساتھ مل کر خوب پٹواتی ہے اور اِسی دوران اپنے نئے عاشق کو بھی دوچارہاتھ لگواکراِس سے بھی جان چھڑوالیتی ہے۔
پچھلے دِنوں پاکستان کی سرحد سے متصل بھارتی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں بس اورپولیس اسٹیشن پر حملے کو جواز بناکر جس طرح پاکستان پر الزام تراشی کے پل کھڑے کرنے میں ذرابھی دیرنہیں لگائی ہے اَب اِس پر یہی کہاجاسکتاہے کہ بھارت پاکستان سے تعلقات خراب کرنے کے بہانے دھونڈتارہتاہے اور بھارت پاکستان کے دوستی اور اچھے پڑوسی جیسے تعلقات روارکھنے کے لئے بڑھے ہاتھ ملاناہی نہیں چاہتاہے جبکہ ایک پاکستان ہے جس نے بھارتی فوج کے شمالی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوداکے اِس اعترافی بیان کے بعد بھی کہ ”پاکستان کی جانب سے مارگریاجانے والاڈرون طیارہ ہماراہی تھا” کے باوجود بھی پاکستان نے صبروبرداشت کا عظیم مظاہر ہ کیا اور اِس نے یہ نہیں چاہاکہ پاکستان بھی بھارتیوں کی طرح جذباتی ہوکر کوئی ایساقدم اُٹھائے جس سے دونوں ممالک میں قربتیں اور محبتیں بڑھنے کے بجائے دوریاں پیداہوں۔
جبکہ ایک بھارت ہے کہ جو پاکستان سے ناراض ہونے اور تعلقات توڑنے اور ختم کرنے کے لئے(خود ہی اپنے یہاں اپنی ہی خالصتان تحریک جیسی علیحدگی پسندتنظیم کے کارندوں سے دہشت گردی کرواکر) بہانے ڈھونڈتارہتاہے اور الزام پاکستان پر لگاکر پاکستان کو دہشت گردریاست گرداننے کا ڈھنڈوراپیٹتارہتاہے، سارے خیرسگالی کے راستے ختم کرنے کا اعلان کردیتاہے اور پھرمجبورکرتاہے کہ پاکستان اِس کے سامنے مذاکرات شروع کرنے کی بھیک مانگے اوریہ اِس سے اپنے نازنخرے اُٹھوائے یہ یکدم ایسے ہی نازنخرے جیسے کہ کوئی معشوقہ جب اپنے عاشق سے کسی بات پر نارض ہوکر ڈیٹ مارنے سے انکارکردیتی ہے تواِس کا عاشق اِسے منانے کے لئے اِس کے نازنخرے اُٹھاتاہے اور ہاتھ پاؤں جوڑاور دباکر اِسے منانے کی کوشش کرتاہے۔
جبکہ ہوناتو یہ چاہئے کہ بھارت اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو اپنے عوام کے سامنے بیان کردے اوراِنہیں بتادے کہ یہ اپنے یہاں پیش آئے کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کا الزام پاکستان پر ِاِس لئے لگاتاہے کہ اِس سے جہاں اِس کی کوتاہیوں کی پردہ پوشی ہوجاتی ہے تو وہیں بھارتی عوام یہ بھی سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے سب کچھ کیادھراپڑوسی ملک کا ہے حالانکہ آج بھارت میں جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات رونماہورہے ہیںاِن سب کے پسِ پردہ خودبھارتی حکمران ، سیاستدان ، اور بھارت کی وہ پرتشدت علیحدگی پسندہندو اور سکھ تنظمیں ہیں جو بھارت سے علیحدگی چاہتی ہیں مگر پھر بھی ازل سے بھارتی حکمران اورسیاستدان اپنی اِن کمزوریوں اور خامیوں دورکرنے سے منہ چراتے ہیںاور جب بھی بھارت میںکوئی بھی علیحدگی پسندہندویا سکھ تنظیم اپنے مطالبات منوانے کے لئے دہشت گردی کردیتی ہے تو بھارتی حکمران اور سیاستدان ڈراور خوف کی وجہ سے اِن کے خلاف فیصلہ کُن اقدام کرنے کے بجائے اُلٹابھارتی حکمران تُرنت اِس کا الزام پاکستان پر لگاکر اپنی کوتاہیوں اور خامیوں پر پردہ ڈالتے دیتے ہیں۔
تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com