تاریخی میچ اور ’’پھٹیچر‘‘ پلیئرز
’’چلو یار میچ دیکھنے لاہور چلیں‘‘ جب عمران خان کے متوالے میرے دوست حسیب نے مجھ سے یہ کہا تو میں حیران رہ گیا اور جواب دیا تم تو پی ایس ایل کے بڑے مخالف ہو اور اسے پسند نہیں کرتے تو اب کیوں فائنل کی یاد آ گئی، مجھ سے مفت ٹکٹ کی امید نہ رکھنا، میں نے خود بعض دوستوں کو خرید کردی ہیں اور مزید پر پیسے خرچ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اس پر جواب ملا ’’ میں نجم سیٹھی سے اتنی نفرت نہیں کرتا جتنی اپنے ملک سے محبت کرتا ہوں، مجھے خوشی ہے کہ طویل عرصے بعد ہم کسی بڑے میچ کی میزبانی کر رہے ہیں،اسی لیے قذافی اسٹیڈیم جانا چاہتا تھا، خیر اب ٹی وی پر ہی فائنل دیکھ لوں گا‘‘۔
یہ تو میں نے صرف ایک واقعہ بتایا آپ سب نے بھی ایسی کئی مثالیں دیکھی ہوں گی، لوگوں میں اس میچ کا اتنا جوش وخروش تھا جو بیان سے باہر ہے، نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان بھر میں فائنل کے دوران شائقین کا جوش و جذبہ عروج پر رہا، ملک میں اتنا بڑا کرکٹ مقابلہ ہوا لیکن اس کی بھرپور مخالفت بھی سامنے آئی وجہ سیاسی مداخلت بنی، حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اسے اپنے سیاسی فوائد کیلیے استعمال کیا، خدشات تو یقیناً تھے لیکن شکر ہے با احسن انداز سے انعقاد ہو گیا، جیسا کہ پہلے کہا جا چکا کہ یہ پہلا قدم تھا اب ہمیں غیرملکی ٹیموں کے سامنے پیش کرنے کیلیے ایک مثال مل گئی، سیکیورٹی اداروں نے انتھک محنت سے فول پروف انتظامات کیے، اسٹیڈیم میں والدین اپنے شیرخوار بچوں تک کو لائے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں بھرپور اعتماد تھا کہ فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔
ہزاروں لوگوں نے اسٹیڈیم اور لاکھوں نے اپنے گھروں پر بیٹھ کر ٹی وی پر میچ سے لطف اٹھایا، طویل عرصے بعد میلے کا سا سماں تھا، پی ایس ایل کی صورت میں کرکٹ نے ایک بار پھر قوم کو یکجا کیا، اسی کے ساتھ یہ بات غط نہیں کہ فائنل کے انعقاد سے حکومت نے بڑا خطرہ مول لیا، خدانخواستہ کوئی معمولی سا واقعہ بھی ہو جاتا تو ملک میں کرکٹ کی واپسی کا مزید کئی برسوں تک کوئی امکان نہ رہتا، مگر ہم کب تک گھروں میں ڈر کر بیٹھے رہ سکتے تھے ، کبھی نہ کبھی تو کوئی قدم اٹھانا تھا، اس میں غیبی مدد بھی شامل رہی، آپ سوچیں اگر کراچی کنگز کی ٹیم کوالیفائر میں پشاور زلمی کو ہرا دیتی تو پھر کون سا غیرملکی کرکٹر پاکستان آتا؟ میچ سے قبل ہی ٹیم کے اونر نے اعلان کر دیا تھا کہ ان کے تمام فارن پلیئرز ٹور پر آمادہ ہیں،اس وقت عام تاثر یہی تھا کہ اب یہی ٹیم جیتے گی اور پھر ایسا ہی ہوا، پشاور کی فتح پر پی ایس ایل منتظمین نے بھی سکھ کا سانس لیا ہو گا کیونکہ ورنہ پھر سیمی جیسے پلیئرز بھی نہ آتے۔ پشاور کے غیر ملکی کرکٹرز کو پاکستان لانے کا اصل کریڈٹ شاہد آفریدی کو جاتا ہے، ان کا انٹرنیشنل کرکٹ میں بڑا مقام ہے، آفریدی کی ہی ضمانت پر ڈیرن سیمی وغیرہ لاہور آنے پر آمادہ ہوئے۔ اب جب کہ میچ کا کامیابی سے انعقاد ہو چکا ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ بس اب تو غیرملکی ٹیمیں یہاں آنے لگیں گی، یقیناً اس میں مزید کئی برس لگ سکتے ہیں، چیئرمین پی سی بی شہریارخان بھی اس سے متفق ہیں، میری کل ہی ان سے تفصیلی بات ہوئی تو وہ حقیقت پسندانہ انداز اپنائے نظر آئے، بورڈ کو اب ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا ایک منصوبہ بنانے کے بعد پھر اس پر سنجیدگی سے عمل کرنا چاہیے، بھاری رقم دے کر زمبابوے جیسی کسی ٹیم کو بلایا تو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔
اس بار ایونٹ کا آغاز ہی اسپاٹ فکسنگ جیسے بڑے تنازع سے ہوا، البتہ کامیاب اختتام نے اس پر پردہ ڈال دیا، منتظمین کو اب سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا کہ آئندہ مسائل سے کیسے بچا جائے، اینٹی کرپشن اقدامات مزید سخت کرنا ہوں گے، دبئی میں صرف ایک ہوٹل نہیں سیکڑوں اور بھی ہیں بورڈ یہ بات بھی سوچے، امپائرز اتنی غلطیاں کیوں کرتے رہے اس کی بھی چھان بین ہونی چاہیے، ٹیموں کے نام کراچی، لاہور رکھنے کے ساتھ اس میں چند مقامی پلیئرزبھی شامل کریں، اس بار تو کئی میچز کے دوران ٹیموں میں ایک بھی ایسا کھلاڑی موجود نہ تھا جس کا تعلق اسی شہر سے ہو، اسی طرح ٹویٹر پر متحرک ایک بورڈ آفیشل کیلیے اکیلے پلیئرز کا انتخاب آسان بات نہیں ہے، پی ایس ایل کو ایک کمیٹی بنانی چاہیے جس میں چند اثرورسوخ رکھنے والے کرکٹرز بھی شامل ہوں، وہ غیرملکی بڑے نام بھی لا سکیں گے، اس بار ریٹائرڈ یا ٹیم سے باہر کرکٹرز کا زیادہ غلبہ رہا۔
آخر میں کچھ عمران خان کے حالیہ بیان کا ذکر کر لیتے ہیں، ن لیگ کو اتنا فائدہ کسی نے نہیں پہنچایا جتنا نجم سیٹھی نے پہنچا دیا، انھیں ایونٹ کے اچھے انعقاد کا کریڈٹ تو دینا چاہیے ساتھ پی ایس ایل فائنل کی وجہ سے لوگوں کی توجہ پاناما لیک و دیگر مسائل سے ہٹ گئی، اسی بات نے عمران خان کو غصہ دلایا اور ان کے منہ سے ایسے الفاظ ادا ہو گئے کہ حمایتی بھی اب تنقید کر رہے ہیں، ڈیرن سیمی وغیرہ کا عالمی کرکٹ میں نام ہے اور انھیں کسی صورت ’’پھٹیچر ‘‘ نہیں کہا جا سکتا، ویسٹ انڈیز کو 2 بار ورلڈٹی ٹوئنٹی میں فتح دلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے، کرس جورڈن بھی اچھی کرکٹ کھیل رہے ہیں، گوکہ دیگر بڑے نام نہیں مگر انھیں ’’پھٹیچر ‘‘بھی نہیں کہنا چاہیے، ویوین رچرڈز اور ڈین جونز کو میں اس لیے شمار نہیں کر رہا کہ وہ اب سابق کرکٹرز ہیں، حیرت ڈینی موریسن پر ہوئی جو چند ماہ قبل کراچی میں اینڈی رابرٹس، ڈیمین مارٹن اور جونٹی رہوڈز کے ساتھ بے خوف وخطر گھوم رہے تھے اب اچانک ڈر گئے، جیسے کرکٹ کیریئر میں منصور اختر کی سطح کے کھلاڑیوں کو منتخب کرنے میں خان صاحب سے غلطیاں ہوئیں۔
اب الفاظ کے چناؤ میں بھی ایسا ہوا، اگر وہ یہی بات کسی اور انداز میں کرتے تو شاید اتنی بُری نہ لگتی،ممکن ہے ان کے ذہن میں یہ بھی ہو کہ آف دی ریکارڈ بات ہے کسی کو کیا پتا چلے گی، بہرحال یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان ایک محب الوطن انسان ہیں، سیکیورٹی خدشات وغیرہ غلط بھی نہ تھے البتہ بڑی شخصیت ہونے کی وجہ سے انھیں سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے چاہے وہ اپنے ڈرائینگ روم میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں، آج کل موبائل فونز کا دور ہے، کوئی بھی کسی بات کی ویڈیو بنا کر بدنام کر سکتا ہے، عمران خان کے ایک بیان سے اتنا بڑا تنازع اٹھ کھڑا ہوا کہ لوگ پی ایس ایل کی کامیابی کو بھول گئے، اگر کرکٹ میں اسی تیزی سے سیاست آتی رہی تو مستقبل میں یہ پاکستان سپر لیگ کے بجائے پاکستان سیاسی لیگ ہی بن جائے گی۔