لاہور سے چند دنوں کی غیر حاضری ہم مصنوعی لاہوریوں کو پسند نہیں آتی ہم نے اس شہر کو اپنا دوسرا گھر بنایا تو پھر اسی کے ہو کر رہ گئے۔ جوانی کے یادگار دن اور نیم بڑھاپے کے دن بھی اب اسی شہر خوباں کی نذر ہو رہے ہیں۔ میں اس شہر کا پیدائشی نہ سہی اس شہر کا پالا پوسا ضرور ہوں۔ جتنا کچھ پڑھا لکھا سب اسی شہر کی دین ہے اور دنیا میں جتنا کچھ کمایا اور گنوایا وہ بھی سب اسی شہر کا صدقہ ہے۔
ملکہ عالم نور جہاں نے تو اپنی جان دے کر یہ شہر پایا تھا ہمارے پاس اتنا کچھ بھی نہیں کہ لاہور کی ایک گلی تو کجا اس کی کسی دیوار کی ایک اینٹ کی جگہ بھی لے سکیں لیکن ملکہ ہند نور جہاں کی بات اور تھی اس نے اس شہر کو اس قدر چاہا کہ اس کو پانے کے لیے اپنی جان تک دے دی اور اب اپنی باقی زندگی اس شہر کے ایک گوشے میں کاٹ رہی ہے جس کے ساتھ ہی اس کا ایک طلب گار مگر وقت کا بادشاہ اپنے دربار میں آرام کر رہا ہے۔ وقت اور قدرت کا یہ تماشا ہم دیکھ رہے ہیں کہ دو چاہنے والوں میں سے ایک نے تو اپنے قیام کے لیے ایک دوسرا دربار آراستہ کر لیا ہے لیکن دوسرا اس کے قدموں میں وقت کاٹ رہا ہے یہ کہہ کر ہم اجنبی اور بے سہارا لوگوں کے لیے تو کچھ یوں ہے کہبر مزار ما غریباں نے چراغے نے گُلے
نے پرِ پروانہ سوزد، نے صدائے بُلبلے کہ ہم بے سہارا اور بے چارہ لوگوں کے بس میں کچھ بھی نہیں ہمارے مرقد پر تو نہ کوئی چراغ جلتا اور نہ مزاروں کی طرح اسی چراغ پر کسی پروانے کا پر جلتا ہے نہ ہی اس کے باغوں میں سے کسی بلبل کی فریاد سنی جاتی ہے نہ کسی پروانے کے جلتے ہوئے پر کا دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے بس ایک بے بسی اور بے چارگی کی تصویر ہے جو ایک ملکہ عالم نے اپنے حال کی بیان کی ہے اور عجیب اتفاق ہے یا حالات اور وقت کی بے رحمی اور ستم ظریفی کہ ملکہ عالم کی قبر آج بالکل یہی منظر دکھاتی ہے۔صدیاں گزر گئیں اور نہ جانے اس پر دشت کی کتنی تہیں مزید جمتی رہیں گی کہ ملکہ ہند اس بے بسی میں ’زندہ‘ رہے گی اور اس کی دوسری طرف چند قدموں کے فاصلے پر وہ دربار آراستہ رہے گا جس کی رونق ملکہ عالم کے حسن اور ذہانت سے تھی لیکن برصغیر ہند کی اس ملکہ کو خدا نے وہ دنیا دکھا دی تھی جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں اس کے مزار کی صورت میں اسے بھی یاد کر لیتے ہیں۔ وہ مزار جو صاحبہ مزار کے بقول ایک بے رونق سی قبر ہے جس پر نہ چراغ جلتا ہے نہ پھول کھلتا ہے نہ کوئی پروانہ اس پر نثار ہوتا اور نہ ہی کوئی بلبل اپنی اداس صدا بلند کرتا ہے۔قدرت نے اس دنیا میں یہ ایک عجیب تماشا دکھایا ہے کہ اپنے اپنے وقت کے دونوں بلند مرتب۔ ایک بادشاہ اور دوسرا اس بادشاہ کا پیارا کھلونا۔ دونوں آج ایک نگاہ کے فاصلے پر ’زندہ‘ ہیں اور دن رات ایک دوسرے کے دربار میں حاضر رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کا کوئی پرانا درباری ان کے لیے ماضی کی کچھ شگفتہ یادیں بھی تازہ کرتا ہو لیکن وقت پر صدیاں گزر گئیں بس یہی کیا کم ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے زندہ ہیں اور ان کے ہمارے جیسے پس ماندگان ان کو یاد کرتے ہوں اور انھیں ان کے مورخوں کے وہ قصے سناتے ہوں جن کو سن کر وہ ممکن ہے ان کی تصحیح بھی کرتے ہوں کہ اصل بات یوں تھی۔تاریخ کے بھی عجیب کرشمے ہیں۔ کچھ تاریخیں تو وہ ہیں جن کو تحریر تو کجا یاد کرنے والا بھی کوئی نہیں اور کچھ وہ ہیں جن کی تصدیق پر مورخوں نے زندگیاں کھپا دیں اور یہ تاریخیں پھر بھی متنازعہ اور بعض صورتوں میں غیر مصدقہ رہیں جن پر آج تک بحث اور تفتیش و تحقیق جاری ہے اور جاری رہے گی کہ انسانی زندگی کے اس سرمائے کو آنے والی انسانی نسلیں ضایع نہیں ہونے دیں گی اور نہ ہی انھیں غیر واضح اور مبہم رہنے دیں گی۔ یہ انسانی تاریخ کے وہ حصے ہیں جن پر اس کا مستقبل استوار کیا گیا ہے اور انسانی تاریخ کو ایک نئی زندگی دی گئی ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور انسان اپنے ماضی کو زندہ رکھیں گے۔عبدالقادر حسن
نے پرِ پروانہ سوزد، نے صدائے بُلبلے کہ ہم بے سہارا اور بے چارہ لوگوں کے بس میں کچھ بھی نہیں ہمارے مرقد پر تو نہ کوئی چراغ جلتا اور نہ مزاروں کی طرح اسی چراغ پر کسی پروانے کا پر جلتا ہے نہ ہی اس کے باغوں میں سے کسی بلبل کی فریاد سنی جاتی ہے نہ کسی پروانے کے جلتے ہوئے پر کا دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے بس ایک بے بسی اور بے چارگی کی تصویر ہے جو ایک ملکہ عالم نے اپنے حال کی بیان کی ہے اور عجیب اتفاق ہے یا حالات اور وقت کی بے رحمی اور ستم ظریفی کہ ملکہ عالم کی قبر آج بالکل یہی منظر دکھاتی ہے۔صدیاں گزر گئیں اور نہ جانے اس پر دشت کی کتنی تہیں مزید جمتی رہیں گی کہ ملکہ ہند اس بے بسی میں ’زندہ‘ رہے گی اور اس کی دوسری طرف چند قدموں کے فاصلے پر وہ دربار آراستہ رہے گا جس کی رونق ملکہ عالم کے حسن اور ذہانت سے تھی لیکن برصغیر ہند کی اس ملکہ کو خدا نے وہ دنیا دکھا دی تھی جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں اس کے مزار کی صورت میں اسے بھی یاد کر لیتے ہیں۔ وہ مزار جو صاحبہ مزار کے بقول ایک بے رونق سی قبر ہے جس پر نہ چراغ جلتا ہے نہ پھول کھلتا ہے نہ کوئی پروانہ اس پر نثار ہوتا اور نہ ہی کوئی بلبل اپنی اداس صدا بلند کرتا ہے۔قدرت نے اس دنیا میں یہ ایک عجیب تماشا دکھایا ہے کہ اپنے اپنے وقت کے دونوں بلند مرتب۔ ایک بادشاہ اور دوسرا اس بادشاہ کا پیارا کھلونا۔ دونوں آج ایک نگاہ کے فاصلے پر ’زندہ‘ ہیں اور دن رات ایک دوسرے کے دربار میں حاضر رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کا کوئی پرانا درباری ان کے لیے ماضی کی کچھ شگفتہ یادیں بھی تازہ کرتا ہو لیکن وقت پر صدیاں گزر گئیں بس یہی کیا کم ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے زندہ ہیں اور ان کے ہمارے جیسے پس ماندگان ان کو یاد کرتے ہوں اور انھیں ان کے مورخوں کے وہ قصے سناتے ہوں جن کو سن کر وہ ممکن ہے ان کی تصحیح بھی کرتے ہوں کہ اصل بات یوں تھی۔تاریخ کے بھی عجیب کرشمے ہیں۔ کچھ تاریخیں تو وہ ہیں جن کو تحریر تو کجا یاد کرنے والا بھی کوئی نہیں اور کچھ وہ ہیں جن کی تصدیق پر مورخوں نے زندگیاں کھپا دیں اور یہ تاریخیں پھر بھی متنازعہ اور بعض صورتوں میں غیر مصدقہ رہیں جن پر آج تک بحث اور تفتیش و تحقیق جاری ہے اور جاری رہے گی کہ انسانی زندگی کے اس سرمائے کو آنے والی انسانی نسلیں ضایع نہیں ہونے دیں گی اور نہ ہی انھیں غیر واضح اور مبہم رہنے دیں گی۔ یہ انسانی تاریخ کے وہ حصے ہیں جن پر اس کا مستقبل استوار کیا گیا ہے اور انسانی تاریخ کو ایک نئی زندگی دی گئی ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور انسان اپنے ماضی کو زندہ رکھیں گے۔عبدالقادر حسن
Post Views - پوسٹ کو دیکھا گیا: 64
About MH Kazmi
Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276