جمال الدین افغانی کہیں ’’افغانیوں کا ایک بات پر اتفاق، ہم نے کسی بات پر اتفاق نہیں کرنا‘‘، ایک معاہدہ 1988میں ہوا، روس افغانستان سے نکلا اور پھر تباہی و بربادی کی 32سالہ داستان، ایک معاہدہ اب 2020میں دو روز پہلے ہوا، اس بار یہی دعا، میرے مولا! امن، صرف امن۔
امن معاہدہ، امریکہ افغانستان سے نکل رہا، 19سالہ لڑائی، 24سو امریکیوں سمیت 35سو غیر ملکی فوجی مارے گئے، 42ہزار طالبان جنگجو ہلاک، 32ہزار شہری جاں بحق، دو سال پہلے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ، امریکہ کے 840ارب ڈالر لگ چکے، کیا عجیب بات، 15ہزار امریکی فوجی، 8ہزار نیٹو اور اتحادی ملکوں کے فوجی، 3لاکھ 50ہزار افغان فوجی، پھر بھی 63فیصد علاقہ طالبان کے پاس، وعدہ اوباما نے بھی کیا افغانستان سے نکلنے کا، فوجی واپس بلائے بھی، لیکن اپنی فوجی قیادت کے اصرار پر 10ہزار فوجی رہنے دیے۔
وعدہ ٹرمپ نے بھی کیا تھا افغانستان سے نکلنے کا مگر اپنی فوجی قیادت کے کہنے پر 4ہزار مزید فوجی افغانستان بھجوا دیے لیکن چونکہ ٹرمپ کا صدارتی الیکشن سر پر، وہ اگلے انتخابات سے پہلے افغانستان سمیت تمام ممالک سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اپنا پچھلا انتخابی وعدہ پورا کرنا چاہ رہے، لہٰذا وہ پہلے دن سے امن معاہدے کیلئے پُرجوش، اب یوں سمجھئے، امن معاہدے کے بعد صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم بھی شروع ہو چکی۔
2011، قطر میں طالبان رہنمائوں کی میزبانی شروع ہوئی، 2013، دوحا میں طالبان کا دفتر کھلا، 2018، طالبان کا امریکی حکام سے ملاقاتوں کا اعلان، مری مذاکرات، 29فروری 2020، دوحا میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ملا عبدالغنی برادر اور امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا معاہدے پر دستخط کرنا، یہاں تک پہنچتے پہنچتے بہت کٹھن مرحلے آئے، ٹرمپ نے مذاکرات شروع کئے، مذاکرات ختم کیے۔
ٹرمپ نے پاکستان پر بھی چڑھائی کی، جنوری 2018، پاکستان جھوٹا، دھوکے باز، ہمارے 33ارب ڈالر کھا گیا، اس سے پہلے، 21اگست 2017، ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے، پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ، 9نومبر 2017، اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکولسن بولے، پاکستان کے رویے میں تبدیلی نہیں آرہی۔
24نومبر 2017، وزیر خارجہ پومپیو، اب پاکستان کیخلاف کچھ کرنا ہی پڑے گا، امریکہ کا فٹیف کے ذریعے پاکستان پر دبائو، امریکہ کا آئی ایم ایف کو کہنا پاکستان کو قرضے نہ دو، امریکہ کی جنوبی ایشیا کیلئے نئی پالیسی آنا، پاکستان کی تذلیل، بھارتی کردار کو سراہا گیا، مگر جب پاکستانی سول ملٹری قیادت نے یک جان ہو کر امریکی دبائو میں آنے سے انکار کر دیا تو امریکی رویہ بدلا۔
پہلے بیک ڈور میل میلاپ پھر سرِعام ملاقاتیں، سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کا امریکی اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرانا، اب تعلقات برابری پر، عزت کرو گے تو عزت ہوگی اور پھر عمران، ٹرمپ ملاقاتیں، اب صورتحال یہ، نہ صرف صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے ’’پاکستان نے گزرے 18ماہ میں جو کیا، وہ 18سالوں میں نہ ہوا‘‘ بلکہ ابھی چند روز قبل بھارت میں پردھان منتری مودی کے سامنے ٹرمپ بولے ’’پاکستان دوست، عمران خان دوست، پاکستان کا دہشت گردی کیخلاف کردار مثبت‘‘۔
بلاشبہ وزیراعظم عمران خان کا شروع سے یہی مؤقف کہ ہمیں پرائی جنگیں نہیں لڑنا چاہئیں اور جنگ نہیں مذاکرات، بلاشبہ پچھلے 3سالوں میں ہماری عسکری قیادت خصوصاً جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس معاہدے تک پہنچنے کیلئے خاموشی سے جو کام کر دیا، وہ اب تاریخ کا حصہ، بلاشبہ ٹرمپ کا اپنی قوم سے بھی وعدہ تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجی واپس بلا لوں گا۔
بلاشبہ جیسے ہزاروں ہلاکتوں، کھربوں ڈالر کے نقصان کے بعد نہ روس کو کچھ ملا نہ امریکہ کو کچھ حاصل ہوا، ویسے ہی تین نسلیں مروا کر، ہزاروں بچے یتیم کروا کر، ہزاروں سہاگ اجڑوا کر، ایک نسل کو معذور بنوا کر اور ملک کا سوا ستیاناس کروا کر افغانیوں کو بھی کچھ نہ ملا، جہاں تک پاکستان کا معاملہ، اسے کیا ملنا تھا۔
لاکھوں لٹے پٹے افغان مہاجروں کا بوجھ، کلاشنکوف کلچر، طرح طرح کے نشے، بھانت بھانت کے جرائم، دو دہائیوں پر مشتمل دہشت گردی، 75ہزار جانوں اور کھربوں کا نقصان، بلاشبہ اس امن معاہدے تک پہنچنا بہت مشکل، بلاشبہ اس امن معاہدے کو قائم رکھنا اس سے بھی مشکل، بلاشبہ اس سے پہلے کئی معاہدے ہو چکے، ٹوٹ چکے، حتیٰ کہ خانہ کعبہ میں ہونے والا معاہدہ بھی، بلاشبہ افغانستان کی صورتحال بہت گمبھیر، حالات بہت پیچیدہ، دہائیوں کے جھگڑے، نسلوں کی دشمنیاں، جھوٹی انائیں، تکبر بھری ضدیں، بلاشبہ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ یہ امن معاہدہ کامیاب ہو۔
بلاشبہ اشرف غنی کا کردار بھی واضح نہیں، بلاشبہ امریکہ، چین، روس، ایران، پاکستان، ترکی، قطر، سعودی عرب پشتونوں، ازبکوں، تاجکوں سب کو سنبھل کر چلنا، بلاشبہ اب طالبان، حامد کرزئی، اشرف غنی، عبدالرشید دوستم، عبداللّٰہ عبداللّٰہ، افغان سول سوسائٹی، متحارب دھڑوں میں افغان انٹرا ڈائیلاگ پر سب کچھ منحصر، بلاشبہ اب امن دشمنوں، سازشیوں پر نظر رکھنے اور پھونک پھونک کر چلنے کی ضرورت۔
اس امن معاہدے کے 4حصے، پہلا حصہ، ایسا میکنیزم بنایا جائے گا کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ اور اسکے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو، دوسرا حصہ، اگر طالبان معاہدے پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہوگئے تو طے شدہ مدت میں تمام غیر ملکی فوج افغانستان سے نکل جائیگی، تیسرا حصہ، 10مارچ 2020، افغانستان حکومت کا 5ہزار طالبان قیدی رہا کرنا، طالبان کا ایک ہزار فوجیوں کو رہا کرنا اور افغان انٹرا ڈائیلاگ شروع ہو جانا۔
چوتھا حصہ، اگر جنگ بندی قائم رہی تو پہلے ساڑھے چار ماہ میں 5فوجی اڈوں سے امریکی فوج کا انخلا ہوگا، 8ہزار امریکی فوجی رہ جائینگے، اگلے 9ماہ میں تمام غیر ملکی فوج نکل جائیگی، 27اگست 2020تک طالبان سے امریکی پابندیوں کا خاتمہ ہوگا۔
29مئی 2020تک طالبان سے اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم کروائی جائیں گی، یہ امن معاہدہ، یہ بہت اہم موقع، یہ تاریخی لمحے، یہ وقت افغانستان کیلئے، اس خطے کیلئے، اس دنیا کیلئے بہت اہم، لیکن یہ سفر ابھی شروع ہوا، یہ سفر بڑا لمبا، یہ سفر بڑا کٹھن، دنیا نے اپنا کردار ادا کر دیا، اب باری افغانیوں کی، مگر ماضی کو دیکھوں جہاں دل گھبرائے وہاں رہ رہ کر جمال الدین افغانی یاد آئیں، ان کا کہنا ’’افغانیوں کا ایک بات پر اتفاق، ہم نے کسی بات پر اتفاق نہیں کرنا‘‘۔
ایک معاہدہ 1988ءمیں بھی ہوا، روس افغانستان سے نکلا اور پھر تباہی و بربادی کی 32سالہ تاریخ، ایک معاہدہ اب 2020میں، دو روز پہلے ہوا، اس بار یہی دعا، میرے مولا! امن، صرف امن ہو۔ بشکریہ ارشاد بھٹی روزنامہ جنگ