گزشتہ دنوں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے کراچی میں ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے ڈیموں کی مہم ماند پڑ گئی ہے جبکہ ملک کیلئے ضروری ہے کہ نئے ڈیم جلد از جلد تعمیر کئے جائیں۔ اسی میٹنگ میں میری ملاقات میرے کالم کے قاری واپڈا کے سابق انجینئر سید ساجد جمال سے بھی ہوئی جو تربیلا اور منگلا ڈیم کی تعمیراتی ٹیم میں شامل تھے۔ انہوں نے مجھے پاکستان میں ڈیموں کی تاریخ کے بارے میں نہایت دلچسپ معلومات فراہم کیں، جو آج میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
1940ء میں امریکہ شدید مالیاتی بحران کا شکار تھا، امریکی صدر روز ویلٹ نے معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے پورے ملک میں میگا پروجیکٹس شروع کئے۔ صدر کے دوست لیلین تھال کو امریکہ میں ڈیم بنانے کی ذمہ داری دی گئی مگر لیلین تھال کی دو شرائط تھیں۔ پہلی فیصلوں کی آزادی اور دوسری صرف صدر کے سامنے جوابدہی۔ لیلین تھال نے دریائے ٹینیسی پر درجنوں ڈیم بنائے۔ ڈیموں کی تعمیر کے دوران لیلین کو معلوم ہوا کہ جوہری توانائی سے بجلی حاصل کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔ وہ یہ منصوبہ لیکر امریکی صدر کے پاس گیا، جس نے لیلین کو اٹامک انرجی کمیشن کا سربراہ بنادیا اور اس طرح لیلین تھال امریکہ میں جدید ڈیموں اور اٹامک انرجی کا بانی کہلانے لگا۔ انہی دنوں قیامِ پاکستان کے بعد بھارت نے پاکستان کا پانی بند کر دیا۔ امریکہ پاکستان کو کامیاب، ترقی یافتہ اور مضبوط ملک دیکھنا چاہتا تھا۔ لیلین تھال 1950ء کی دہائی میں سرکاری افسروں کو لیکچر دینے پاکستان آیا اور ملک کی خوبصورتی اور لوگوں کی محبت سے بہت متاثر ہوا۔ لیلین نے پاکستان کو پانی اور بجلی میں خود مختار بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ورلڈ بینک کے صدر یوجین رابرٹ بلیک، لیلین کا دوست تھا ،وہ اسے پاکستان لے آیا اور اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون جنہوں نے 1958ء میں صرف تین ملین ڈالر میں سلطنت عمان سے گوادر خرید کر پاکستان میں شامل کیا تھا جو آج سی پیک کا محور ہے، نے لیلین تھال کے مشورے پر پاکستان میں واٹر اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) قائم کی۔ 1958ء میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان پاکستان کے صدر بن گئے۔ بھارت بار بار پاکستان کا پانی روک لیتا تھا جس پر ورلڈ بینک کے صدر یوجین رابرٹ بلیک اور لیلین تھال نے صدر ایوب خان کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان میں متعدد ڈیم بنائیں بصورت دیگر بھارت سے جنگ کی منصوبہ بندی کر لیں۔ اس طرح عالمی بینک نے 1960ء میں بھارت پر دبائو ڈال کر سندھ طاس معاہدہ کروایا جس کو بھارت آج بھی نہرو کی سیاسی غلطی قرار دیتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان کو 3اہم کام کرنا تھے۔ پہلا جلد از جلد ڈیموں کی تعمیر، دوسرا ڈیموں کے پانی سے بجلی پیدا کرنا اور تیسرے بھارت کے حصے میں آنے والے تین دریائوں بیاس، راوی اور ستلج کے زیر کاشت علاقوں تک دریائے سندھ کا پانی نہروں کے ذریعے پہنچانا۔ صدر ایوب خان نے اس وقت ملک کے دو بڑے بیورو کریٹس غلام اسحاق خان اور غلام فاروق کے ذمہ یہ کام سونپے۔ غلام فاروق امریکہ گئے اور ورلڈ بینک کے صدر یوجین رابرٹ سے ڈیم ڈیزائن کرنیوالی 10بڑی کمپنیوں کی فہرست لی اور ان سے پوچھا کہ ان میں سے کون سی کمپنی کا سربراہ امریکی صدر کے قریب ہے۔ ورلڈ بینک کے صدر نے مسکراتے ہوئے فہرست کی تیسری کمپنی پر انگلی رکھی اور وہ کمپنی ہارزا انجینئرنگ تھی۔ کمپنی کا سی ای او امریکی صدر کے ساتھ گولف کھیلتا تھا۔ غلام فاروق نے کمپنی کے سی ای او سے ملاقات کی اور پہلی میٹنگ میں ہی اسے منگلا ڈیم کی ڈیزائننگ کا کام سونپ دیا گیا۔ غلام فاروق نے آرڈر دینے میں نہ تو پیپرا قوانین لاگو کئے اور نہ ہی انہیں اس بات کا ڈر تھا کہ کوئی ادارہ ان سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ آپ نے پہلی دو کمپنیوں کو چھوڑ کر یہ کام تیسری کمپنی کو کیوں دیا کیونکہ اس دور میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی بے ایمان یا نالائق افسر کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائے۔ ہارزا انجینئرنگ سے یہ معاہدہ ہوا کہ کمپنی 270 امریکی انجینئرز پاکستان لائیگی اور ہر امریکی انجینئر دو پاکستانی انجینئر کو تربیت دیگا۔ پاکستان نے 1962ء میں منگلا ڈیم کی تعمیر کا عالمی معاہدہ کیا جو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سول انجینئرنگ کنٹریکٹ تھا۔ پاکستان کے پاس ڈیم کی تعمیر کیلئے مجموعی لاگت کا صرف 15 فیصد تھا جبکہ باقی 80 فیصد رقم ہمیں 17ممالک نے گرانٹ کی شکل میں دی۔ 2سال بعد تربیلا ڈیم پر بھی کام شروع ہو گیا جو منگلا ڈیم سے دگنا بڑا منصوبہ تھا جس کا 3ممالک کی کمپنیوں نے مل کر ٹھیکہ لیا۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے طالبعلموں کو ہوائی جہاز کے ذریعے پندرہ دن کیلئے پاکستان ڈیموں کی سائٹ پر لاتا تھا۔ تربیلا ڈیم اس دور کا اہرامِ مصر تھا اور پوری دنیا کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں نے اس پر مقالے لکھے۔ منگلا اور تربیلا ڈیم اپنی مدت سے کم وقت میں مکمل ہوئے اور دنیا پاکستان کے جذبے، شفافیت اور قوتِ فیصلہ کی معترف ہو گئی۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کو منگلا اور تربیلا ڈیم کے علاوہ کالا باغ ڈیم بنانے کی بھی تجویز دی تھی جو منگلا اور تربیلا کے مقابلے میں نسبتاً آسان تھا چنانچہ واپڈا نے فیصلہ کیا کہ ہم امریکی انجینئرز سے منگلا اور تربیلا ڈیم بنوا لیتے ہیں اور اس دوران ہمارے تربیت یافتہ انجینئرز خود کالا باغ ڈیم بنا لیں گے۔ یہ ہماری وہ غلطی تھی جس کا قوم آج تک خمیازہ بھگت رہی ہے۔ 1958ء سے 1971ء تک اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں ترقی کے دروازے کھول دیئے۔ اس دور میں ملک کو جتنے ایماندار اور وژنری بیورو کریٹس، سفارتکار اور سیاستدان ملے، دوبارہ نصیب نہیں ہوئے۔ اس دور کے بیورو کریٹس ریاست کیلئے ہر فیصلہ ملکی مفاد میں اللہ کا حکم سمجھ کر کرتے تھے۔ نیویارک کا روز ویلٹ ہوٹل ہو یا امریکہ، لندن، فرانس اور اٹلی کے سفارتخانے جن کی عمارتیں دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں کیونکہ ان اداروں کے پیچھے کوئی نہ کوئی غلام اسحاق خان یا غلام فاروق جیسا بیورو کریٹ ہوتا تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی بنیاد رکھی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنا دیا۔ ڈاکٹر محبوب الحق جن کا شمار دنیا کے معروف معیشت دانوں میں ہوتا ہے، 1985ء سے 1988ء تک پاکستان کے وزیر خزانہ رہے۔ میں ہمیشہ لکھتا آیا ہوں کہ وژنری لیڈرز قوموں کی قسمت بدل دیتے ہیں، ہمیں قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ کے علاوہ ایسے بے شمار وژنری لیڈرز، بیورو کریٹس اور سفارتکار ملے جنہوں نے پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ایسی ہی ایماندار، وژنری اور باصلاحیت قیادت عطا فرمائے۔