شاہ نورانی کا مزار کراچی سے تقریبا200کلومیٹر دور بلوچستان کے پہاڑی دامن میں واقع ہے شاہ نورانی کا اصل اور پورا نام حضرت شاہ بلاول ہے، حضرت شاہ بلاول کو عام طور پر شاہ نورانی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔شاہ نورانی کا مزار صدیوں سے قائم ہے تاہم موجودہ شکل میں مزار کی تعمیر قیام پاکستان کے بعد عمل میں آئی۔ حضرت بلاول المعروف حضرت شاہ نورانی کا سلسلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے ۔ شاہ نورانی کے عرس اور میلے میں آنے والے زائرین قافلوں کی شکل میں آتے ہیں اور ان قافلوں کے شرکاء جئے شاہ جبل میں شاہ۔۔نورانی نور ہر بلا دور۔۔ جئے شاہ نورانی جئے شاہ نورانی۔۔کے فلگ شگاف نعرے لگاتے ہوئے آتے ہیں کراچی سے شاہ نورانی کے مزار تک جانے کے لئے شیر شاہ،سعید آباد، مہاجر کیمپ
،بلدیہ ٹائون، پولیس لائن کراچی،مواچھ گوٹھ ،حب ریور روڈ ،رئیس گوٹھ اور حب ندی کے پل سے حب چوکی شہر سے ہوتے ہوئے حب دریجی روڈ پر ساکرانکے ہرے بھرے باغات سے ہوتے ہوئے یہ راستہ تقریبا ڈیڑھ سو کلومیٹر طویل حب دریجی روڈ،لنگ لوہار،حسن پیر ،پڑیاں اور نورانی کراس اور محبت فقیر سے ہوتا ہوا شاہ نورانی کے مزار پر پہنچتا ہے ۔کراچی سمیت ملک بھر سے ہزاروں زائرین ہر سال شاہ نورانی کے سالانہ عرس اور میلے کے موقع پر شاہ نورانی پہنچتے ہیں ، ان زائرین میں زیادہ تر تعداد پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہوتی ہے۔ شاہ نورانی آنے والے زائرین کو عام الفاظ میں ’’ مولائی ‘‘کہا جاتا ہے اور مولائی کے نام سے شاہ نورانی پہنچنے والے زائرین میں سے چند ایک کو(لاہوتی) ہونے کا اعزاز اور لقب ملتا ہے ۔لاہوتی کا لقب اس لئے مولائیوں کو ملتا ہے کہ مزار کے قریب ایک پہاڑی غار واقع ہے کہا جاتا ہے کہ اس غار کے اندر پانی کا قطرہ قطرہ بہتارہتا ہے اور اس پانی کو پینے والوں کو ہر مرض سے شفاء نصیب ہوتی ہے جبکہ شاہ نورانی پر آنے والے زائرین یہاں اپنے دل کی مرادوں کے مطابق منتیں مانگتے ہیں اور جب منتیں مانگنے والوں کی مرادیں پوری ہوجاتی ہیں تو لوگ پھر واپس آکر حضرت شاہ
نورانی کے مزار پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں ، خیراتیں کرتے ہیں ، لنگر تقسیم کرتے ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ضرورتمندوں کو خیرات دیتے ہیں، یہاں ایک پہاڑی سلسلہ بھی ہے جس پر چڑھنے والوں کو اوراس پہاڑی سلسلے پر بعض مراحل کو ، مخصوص مراحل کو طے کرنے والوں کو لاہوتی کا لقب دیا جاتا ہے ۔لاہوتی کا لقب پانے والے لاہوتی کا نام ہمیشہ اپنے اصل نام کے ساتھ منصوب کر لیتے ہیں بلکہ اصل نام کے بجائے لاہوتی ہی کے نام سے پکارے جانے پر لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔کراچی سے حضرت شاہ نورانی کے مزار تک پہنچنے کیلئے کچھ عرصہ قبل چوبیس گھنٹے کی مسافت طے کرنا پڑتی تھی اور آج کے دور کی جدید کاریں اس کام کیلئے مناسب نہیں سمجھی جاتی تھیں اور لوگ فور بائے فور گاڑیوں اور بڑی بسوں پر سوار ہو کر حضرت شاہ نورانی کے مزار پر پہنچتے تھے مگر چند سال قبل حکومت بلوچستان کے محکمہ بلدیات کی جانب سے حب سے ساکران اور دریجی جانے والی روڈ کو پختہ کرادیا گیا ہے اور اس بلیک ٹاپ روڈ کے باعث اب کراچی سے شاہ نورانی کے مزار تک مسافت اب
صرف چار گھنٹے سے کم مسافت پر طے کرلی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ہفتے اتوار اور جمعرات کی شب زائرین کی ایک بڑی تعداد حضرت شاہ نورانی کے مزار پر جمع ہوتی ہے کراچی کے سینکڑوں نوجوان قافلوں کی صورت پر موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر چھٹی کے روز بالخصوص رمضان المبارک اور محرم الحرام کے ایام میں حضرت شاہ نورانی کے مزا ر پر جاتے ہیں ۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ لمبا اور ویران پہاڑی علاقے کا راستہ ہونے کے باوجود اس علاقے میں چوری چکاری ڈکیتی ، رہزنی اور لوٹ مار کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔یہ علاقہ اور یہاں کی مسافت انتہائی پر سکون، پر امن اور محفو ظ ترین سمجھی جاتی ہے ۔حب سے شاہ نورانی تک ضلع لسبیلہ اور ضلع خضدار کی حدود ملتی ہیں اور بلوچستان کے ان دو اضلاع کی حدود او ردو اضلاع کے الگ الگ انتظامی قوانین پولیس، لیویز فورس اور مقامی قبائلی سرداروں کے اثر رسوخ کے باوجود یہاں بد امنی اور لوٹ مار کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتااور یہاں آنے والے زائرین اس سفر کو انتہائی پر امن پر سکون اور محفوظ تصور کرتے ہیں۔ حضرت شاہ نورانی کا سالانہ میلہ ہر سال رمضان المبارک کی دو تاریخ سے شروع ہوتا ہے اور تین روز تک جاری رہتا ہے حضرت شاہ نورانی کے اس سالانہ میلے میں ملک بھر بالخصوص سندھ اور پنجاب سے زائرین کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے ۔ان زائرین میں مرد، عورتیں ،بچے شامل ہوتے ہیں جبکہ فقیر کہلانے والے خواجہ سرائیں بھی مزار پر پہنچنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ حضرت شاہ بلاول المعروف حضرت شاہ نورانی کامزار علاقے میں صدیوں سے قائم ہے اور صدیوں سے حضرت شاہ نورانی کا میلہ ہر سال دھوم دھام سے منایا جاتا ہے