انقلاب روس کو اس سال اکتوبر میں سو برس مکمل ہوئے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والا سوشلسٹ سیاسی و سماجی نظام 75 برس تک روس اور دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے گہرے نقوش مرتب کرنے کے بعد 25 برس قبل عالمی سرمایہ دار دنیا کی سازشوں کا شکار ہوکر ریاستی اقتدار و اختیار سے محروم ہوگیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آیا سوویت ریاست کے انہدام کے بعد سوشلسٹ نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے؟ کیا یہ فلسفہ آج کی دنیا کے سیاسی و معاشی نظام میں اپنی متعلقہ رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر متعلقہ ہے تو پھر اس کا نفاذ کا طریقہ کار یا میکنزم کیا ہونا چاہیے؟ دنیا کا امیر ترین شخص بل گیٹس یہ کہنے پر مجبور ہے کہ سرمایہ داری نظام اپنے لالچ، ہوس زر اور کوتاہ بینی کے باعث اس دھرتی پر بہتر زندگی دینے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے، بلکہ اس نظام نے عالم انسانیت کو بدترین طبقاتی تقسیم کے ذریعے اذیتوں میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’آج کی دنیا میں سماجی انصاف وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب انسانی معاشروں میں معاشی انصاف ہو۔ معاشی انصاف کے لیے ہم سوشلسٹ نظام کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں، کیونکہ اس کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا‘‘۔
درج بالا سوالات اور حوالے دینے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی، کیونکہ اس وقت میرے سامنے انقلاب روس کے ایک اہم کردار، بانی انقلاب لینن کے دست راست لیون ٹراٹسکی کی شہرہ آفاق کتاب ’’انقلاب روس‘‘ کا اردو ترجمہ رکھا ہوا ہے۔ یہ ترجمہ عمران کامیانہ نے کیا ہے اور اسے طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ یہ ضخیم تاریخی دستاویز 1090 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اس وقت کے روس کی اندرونی سیاسی صورتحال، انقلابیوں کی حکمت عملیوں، رد انقلاب کی قوتوں کی کوششوں اور سوویتوں کی کامیابیوں کا مکمل احوال موجود ہے۔
یہ کتاب کسی تاریخ دان، مورخ یا استاد کی تحریر کردہ نہیں ہے، بلکہ اس کتاب کا مصنف سیاسی کارکنوں اور رہبروں کی صف کا وہ مجاہد ہے، جو اس انقلاب کے عمل کے ہر اول دستہ کے کمانداروں میں سے ایک تھا۔ اس لیے اس نے جو کچھ تحریر کیا ہے، وہ اس کے قریبی، مطالعہ، مشاہدے اور ذاتی تجربات کا عکاس ہے۔
یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد زار روس کا خاتمہ ہے۔ اس جلد میں 23 ابواب ہیں، جن میں زار روس کی حکمرانی کے خاتمے کے مختلف پہلوؤں کا سائنسی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسری جلد رد انقلاب کے بارے میں ہے۔ اس جلد میں 14 ابواب ہیں۔ یہ ایک اہم موضوع ہے۔ کیونکہ تاریخ عالم میں جب کبھی بھی انقلاب بپا ہوا، رد انقلاب قوتیں زیادہ شدمد کے ساتھ سامنے آئیں اور انھوں نے انقلاب کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔
تیسری جلد سوویتوں کی فتح کے بارے میں ہے۔ اس جلد میں 11 ابواب ہیں۔ جن میں انقلاب کی سوویت معاشرے کی نچلی ترین سطح تک رسائی اور اس کے عام آدمی کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے ابتدائیہ میں معروف ترقی پسند دانشور اور بائیں بازو کے سرگرم کارکن ڈاکٹر لال خان لکھتے ہیں کہ ’’اگر ہم رنگ، نسل، موسموں، علاقائی، جغرافیائی اور تاریخی عوامل سے قطع نظر جائزہ لیں، تو آج کے پاکستانی معاشرے اور قبل از انقلاب روس میں گہری مشابہتیں موجود ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیشتر سابقہ نوآبادیاتی اور نام نہاد ترقی پذیر ممالک کی کم و بیش یہی کیفیت ہے۔
اگر ہم پاکستان اور اس وقت روس میں مذہبی تسلط کی صورتحال کا جائزہ لیں، وہاں کی ریاستی مشنری اور سرمایہ دار طبقات کے کردار کا جائزہ لیں، عمومی بدحالی، پسماندگی اور جاگیردارانہ جبر کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے،گویا پاکستان کی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ ایک اور کلیدی مشابہت زار شاہی روس اور آج کے پاکستان میں موجود قومی مسئلے اور حاکم قوم کے شاونزم میں ملے گی‘‘۔
اگر کتاب کے موضوعات پر بحث کرنے کے بجائے اس کے مندرجات کی روشنی میں اپنے ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کا تقابلی جائزہ لیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے حالات قبل از انقلاب روس سے بھی ابتر ہوچکے ہیں۔
ہمارا معاشرہ اس وقت مذہبی شدت پسندی، نسلی و لسانی آویزش اور قومیتی تقسیم کی بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ کر بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے لیکن طبقاتی تقسیم جو ان تقاسیم کا اصل باعث ہے، اس پر کسی بھی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاست کا قومی بیانیہ وضاحتی اور سیاسی جماعتوں کا طرز عمل بھی مذہبی شدت پسندی، متشدد فرقہ واریت اور نسلی و لسانی تفاوت کو ہوا دینے کا باعث بنا ہوا ہے۔
پاکستان اس وقت ایک ایسی صورتحال کا شکار ہے،جس میں نان ایشوز کو ایشوز کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن عوام کی اکثریت کو درپیش حقیقی مسائل سے صرف نظر کیا جارہا ہے۔ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ تجارتی خسارہ 27 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔
ملک کی معیشت عالمی اور ملکی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے حوالہ جات پر منحصر ہوکر رہ گئی ہے۔ تعلیم اور صحت جو شہریوں کا بنیادی حق ہے،انتہائی ابتری کا شکار ہیں۔ اگر صرف سندھ کی بات کریں تو ہر سال 63 فیصد بچے اسکولوں میں داخلہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ صحت کی صورتحال مزید ابتر ہے۔ مگر ریاستی مقتدرہ صرف ان منصوبوں میں دلچسپی رکھتی ہے، جن میں بھاری کک بیکس ملتے ہیں۔
حکمران اور سیاسی اشرافیہ ملک کی مجموعی صورت حال کو نظر انداز کرتے ہوئے کفر و مسلمانی کی بحث میں الجھی ہوئی ہے۔ معاشرہ جو پہلے ہی افقی اور عمودی تقسیم کا شکار ہے، اس میں اب دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی رہی سہی امید بھی دم توڑتی نظر آرہی ہے۔کیونکہ کچھ حکومتی اراکین اسمبلی جو اپنے دامن پر لگے بدعنوانیوں کے داغ صاف کرانے میں ناکام ہیں، پارلیمان کی در و دیوار کو اپنی زہر آلود تقاریر سے لرزاں براندام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ وہ مذہبی شدت پسند اور متشدد فرقہ وارانہ قوتیں جو جمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی کی بدترین مخالف رہی ہیں، آج انتخابی سیاست کے ذریعے پارلیمان کی تسخیر کے لیے کمربستہ ہوچکی ہیں۔
کفر و ایمانی اور نسلی و لسانی آویزش کے شور وغوغا میں کسی کو اس 40 فیصد سے زائد آبادی کی فکر نہیں ہے، جو حکمران اشرافیہ کی غلط حکمت عملیوں کے باعث خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ ان محنت کشوں کی فکر نہیں، جنھیں آئین و قانون میں طے کردہ مراعات اور سہولیات سے دانستہ محروم رکھا جارہا ہے۔ عام شہری سے زندہ رہنے کا حق تک چھین لیا گیا ہے، جو سیاسی جماعتیں عوامی نمایندگی کی دعویدار ہیں، وہ اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے سے گریزاں ہیں۔
جنرل ضیا کے دور سے ٹریڈ یونین تحریک تقسیم در تقسیم کا شکار کردی گئی ہے۔ طلبا یونینوں پر قدغن کے باعث سیاست میں نئے روشن خیال کیڈر کی آمد کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔کافی ہاؤس کلچر کے خاتمے سے اہل دانش کی باہمی مشاورت کا سلسلہ موقوف ہوچکا ہے۔
ایسے ابتری کے ماحول میں جب ہم نقیب انقلاب لینن کے دست راست لیون ٹراٹسکی کی اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ وطن عزیز بھی اسی راہ پر گامزن ہے، جس پر انقلاب سے قبل کا روسی معاشرہ تھا۔ لہٰذا پاکستان کے معاملات کا حل اب صرف ایک ایسے سیاسی نظام سے مشروط ہوچکا ہے، جس میں شراکتی جمہوریت کے ذریعے اقتدار واختیار ریاست کے نچلے ترین انتظامی یونٹ تک منتقلی ممکن ہوسکے۔ زرعی اصلاحات کے ذریعے ہاریوں (مزارعین) کی معاشی اور سماجی بااختیاریت کو یقینی بنایا جا سکے۔ سماج کے تمام طبقات کی پارلیمان میں نمایندگی کا کوئی طریقہ کار اور میکنزم تیار کیا جاسکے۔ شاید اس کے علاوہ اس ملک کو مسائل اور بحرانوں کی دلدل سے نکالنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس لیے اس کتاب کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے، جو وطن عزیز کی صورتحال سے دل گرفتہ ہے۔