تحریر از: محمد یاسر
سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب ہم لفظ “نشہ” بولتے یا لکهتے ہیں؛ تو جانے انجانے میں ہم ہزاروں لاکھوں قسم کی
نشہ آور اشیاء کو مخاطب کرتے ہیں، جو کہ نباتاتی بهی ہو سکتی ہیں، اور جماداتی بهی ہو سکتی ہیں،
اور کیمیاوی بهی ہو سکتی ہیں. اس کی وضاحت آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کی ایک حدیث مبارکہ کے حوالے سے کروں گا.
صحیح مسلم کی حدیث میں مذکور ہے:ﻛُﻞُّ ﻣُﺴْﻜِﺮٍ ﺧَﻤْﺮٌ، ﻭَ ﻛُﻞُّ ﻣُﺴْﻜِﺮٍ ﺣَﺮَﺍﻡٌ. ترجمہ: “ہر خماری لانے والی شئے نشہ ہے، اور تمام نشے حرام ہیں”.
حوالہ جات: اس حدیث کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں، جبکہ یہی حدیث من و عن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے بھی روایت کی گئی ہے. جبکہ سنن ابی داؤد میں “باب نہی عن المسکر”
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اسی حدیث کے راوی ہیں، جنہوں نے اسی حدیث کو مندرجہ زیل الفاظ کے اضافے کے ساتھ سے روایت کیا ہے کہ “نشہ کرنے والے کی چالیس دن کی عبادات و نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں،
تاوقتیکہ وہ سچے دل سے اللہ سے معافی کا خواستگار ہو جائے”.
معزز قارئین کرام: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہء نبوت میں “شراب” ایک عام دستیاب نشہ تها، مختلف جگہوں پر اسکا کا ذکر جا بجا مذکور ملتا ہے. لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین بهی تهے؛
اور سرور الأنبياء بهی تهے، تمام جہانوں کے ظاہر و مخفی علوم آپکے سامنے دست بستہ تهے. گذشتہ تاریخ کے تمام تر معاملات اور آئندہ رونما ہونے والے تمام معاملات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں تهے. لہذا جب نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے “منشیات” کے بارے میں اسلامی اصولوں کو واضح کرنا چاہا؛ تو انہوں نے صرف “شراب” کو مخاطب نہیں کیا تها، بلکہ “تمام نشے” کا لفظ استعمال کیا. اس طرح
گزرے ہوئے تمام زمانوں کی منشیات، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے بعد تا قیامت ایجاد ہونے والی
تمام منشیات کی اقسام کے بارے میں اسلام کا موقف اور جامع حکم صادر فرمایا تھا، تاکہ مستقبل میں کبهی بهی
کسی بھی حوالے سے تمام اقسام کی منشیات کے بارے میں کوئی بھی شک کی گنجائش نہ رہے. مزکورہ بالا حدیث کی روشنی میں شراب سمیت تمام نشہ آور اشیاء قطعی طور پر حرام قرار پائی تهیں، خواہ وہ سابقہ تاریخی نشہ آور اشیاء ہوں، یا وہ اشیاء ہوں، جنہوں نے مستقبل میں ایجاد ہو کر انسانیت کو تباہی سے دوچار کرنا تها.
نشہ زمانہء قدیم سے ہی انسان کے استعمال میں چلا آ رہا ہے، کبهی منشیات کا استعمال صرف طبی مقاصد کے لئے بطور دوا کیا جاتا رہا، اور کبهی یہی نشہ آور اشیاء عمل جراحی کے اہم جزو کے طور پر سامنے آئیں. اس ضمن میں روایاتِ اسلامی میں ایک حوالہ موجود ہے کہ غالباً حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے کے
کسی صحابی کے ہاتھ میں دوران جنگ گہرا زخم ہو گیا تھا، اور اس زخم کی وجہ سے ہاتھ کا وہ حصہ عمل جراحی کے ذریعے جسم سے الگ کرنا مقصود تها، لیکنوہ صحابی فقط اس وجہ سے عمل جراحی سے گریزاں تهے کہ جراحی کی تکلیف سے بچنے کیلئے کسی نشہ آور چیز کا استعمال لازماً کرنا پڑتا، جبکہ وہ صحابی اس نشہ آور شئے کو کسی بھی حالت میں استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے، جبکہ باقی ماندہ ہاتھ بچانے کیلئے
جراحی لازماً کرنی پڑ رہی تهی. بعد ازاں اس مسئلے کا حل یہ تجویز کیا گیا تھا کہ جب وہ صحابی نماز کے دوران
سجدہ ریز ہو جائیں گے، تب اس حالت میں انکے علم میں لائے بغیر زخم کی جراحی کر دی جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا تھا، اور ان صحابی رسول کا نماز میں خشوع و خضوع کا یہ عالم تھا کہ نماز میں متوجہ ہونے کی وجہ سے
انہیں تکلیف کا احساس تک نہ ہو سکا؛ اور جراحی کا عمل مکمل کر دیا گیا تھا. مذکورہ بالا اسلامی واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ منشیات کا محدود استعمال زمانہ قدیم سے ہی بطور خاص دوا کی حیثیت سے کیا گیا ہے. جبکہ
دوسری جانب جب ہم مزید ماضی کو کهنگالتے ہیں تو ایک اور ملعون شخصیت سامنے آتی ہے جس کا نام ہے
“دقیانوس” آپ میں سے اکثر لوگ اس لعین سے زیادہ واقف نہیں ہوں گے.یہی وہ خبیث بادشاہ ہے؛ جس کے مظالم سے تنگ آ کر اصحابِ کہف اسکی سلطنت سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے. (وقت کی کمی کے باعث اسکی مزید تفصیلات پهر کسی آرٹیکل میں لکهوں گا)
بے راہ روی کا شکار یہ بادشاہ نشہ آور اشیاء کا استعمال اپنی جنسی طاقت بڑھانے اور عیش و عشرت کے لئے کیا کرتا تھا. افیون، بهنگ اور شراب ہی اسکا اوڑهنا بچهونا تهی، حتیٰ کہ یہ شخص اس قدر باغی ہو گیا کہ بے پناہ طاقت کے گهمنڈ میں آ کر خدائی کا دعویدار بن بیٹها؛ بعد ازاں اللہ تبارک تعالیٰ نے اس ظالم کو بھی اسکے انجام تک پہنچایا. افیون اور کچی پوست کا استعمال قدیم یونانی دیوی دیوتاؤں اور بادشاہوں اور انکے اہلخانہ سے منسوب ملتا ہے. آگسٹس بادشاہ جس کے نام پر “اگست” کے مہینے کا نام پڑا تها، خود بهی افیون استعمال کرتا تھا،
اور اسکی بیوی بهی استعمال کرتی تهی، نتيجه سنگین نتائج کی صورت میں نکلا تھا. تاریخ میں لگ بھگ سبهی بادشاہ اور انکے مصاحبین عیش و عشرت کے دلدادہ ہوا کرتے تھے،
لیکن قدیم یونانی تاریخ میںآگسٹس کی بیوی یعنی سلطنت کی ملکہ پہلی مرتبہ اعلانیہ طور پر عیش و عشرت میں غرقاب ہوکر بدنام ہوئی. ملکہ منشیات کی اسقدر عادی ہو چکی تھی کہ اسکے معاملات دارالامراہ سے نکل کر
شہر کے گلی کوچوں تک جا پہنچے. دارالحکومت کی گلیوں میں معمولی سے نشے کے عوض کوئی بھی عام آدمی
اپنی ملکہ کے جسم سے کهیل سکتا تها. زندان میں پڑے قیدی اور عام شہری بھی آگسٹس بادشاہ کو کهلے عام طعنے دینے لگے، لیکن آگسٹس اپنی ملکہ کے سامنے بے بس تها، کیونکہ وہ خود بھی منشیات کا استعمال کرتا تھا، حتیٰ کہ اس مخبوط الحواس نشئی بادشاہ نے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے غصے میں تلملا کر ناجائز جنسی تعلقات کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا، اس قانون کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری سلطنت میں جگہ جگہ قبحہ خانے کهل گئے، قیدیوں کی رسائی حرم کی خواتین تک ہوگئی، اور عوام جنگ و جدل کے بجائے عیش و عشرت میں غرق ہو گئی.
نتیجہ یہ نکلا کہ پورا معاشرہ اخلاقی ذوال کا شکار ہو گیا. سرکاری کهیلوں کے میدان میں برہنگی کو جزو لازم قرار دیا گیا تھا، وجہ صرف یہ تهی کہ عوام کی دلچسپی کهیلوں میں مرتکز رہے، اور عوام کو شاہی محل کے معاملات میں یا سیاسی امور میں مداخلت کا خیال نہ آئے. نشے کی لت میں مبتلا آگسٹس بادشاہ سارا دن اپنے شاہی تخت پر بیٹھا اونگهتا رہتا. تاریخ میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ کسی عوامی اجتماع کے موقع پر جب بادشاہ تخت پر براجمان تها، ایک چیل یا گدھ نے بادشاہ کے سر پر بیٹ کر دی، لیکن نشے میں دھت بادشاہ کو خبر تک نہ ہو سکی. عوام نے اس واقعہ کو بادشاہ کیلئے بد فال جانا، اور پوری ریاست میں اسکی آنے والی موت کے بارے میں
چہہ مگویاں شروع ہو گئیں. آگسٹس کا اقتدار تو اسکی موت کے بعد رخصت ہو گیا، لیکن عوام کو جو لت پڑ چکی تھی وہ اگلی کئی صدیوں تک یونانی سیاست پر حاوی رہی. حتیٰ کہ بیرونی حملہ آوروں نے انکی پوری سلطنت کا صفایا کر دیا، لیکن مقابلہ کرنے کیلئے کوئی بھی باکردار حکمران دستیاب نہیں تها، جو عوام کو مقابلے کے لئے آمادہ کرتا. قدیم دیومالائی داستانوں میں حسن و عشق کی دیوی ایفراڈائیٹ جسے عربی میں “افرادنتی” کے نام سے جانا جاتا ہے،
دراصل ایک یونانی شہزادی تهی، جو حسن و جمال میں یکتا تهی، بعد ازاں یہ عورت نشے کی لت میں ایسی مبتلا ہوئی، اور ایسی عبرت انگیز موت مری، کہ آج اسی دیومالائی شہزادی کو “حسرت و یاس کی دیوی” کہا جاتا ہے.
اس کی لاش ایک جزیرے کے ساحل پر پڑی گل سڑ رہی تھی، لیکن اس کی آخری رسومات ادا کرنے کوئی بھی دستیاب نہیں تها، وجہ صرف یہ تهی کہ نشے کی لت نے اس انتہائی حسین و جمیل شہزادی کو ایک معمولی فاحشہ بناکر رکھ دیا تها، اور عوام اس سے بیزار ہو چکی تھی.
برصغیر پاک و ہند میں منشیات کے استعمال سے متعلق پوری ایک کتاب لکهی جا سکتی ہے. ایک عظیم الشان سلطنت کا شیرازہ بکھیرنے میں جہاں دیگر کئی عوامل کارفرما تهے، وہیں افیون اور کثرتِ شراب نوشی عیش و عشرت کے لوازمات میں شامل ہونے کے باعث زوال کے اسباب میں سرفہرست تهے. السلام کا جهنڈا بلند کئے
جو حکمران برصغیر میں وارد ہوئے تھے، اور علاقے میں اسلامی تہذیب کا سرچشمہ بنے تهے، انہی کی اولاد
اخلاقی پستی میں جا گری، اور نشان عبرت بن گئی. رنگیلے اور بهنگیلے حکمران شراب اور افیون کی لت میں ایسے مبتلا ہوئے کہ رقص و سرور کی محفلیں ہی انکے لئے امور سلطنت ٹهہریں.ان کی تلواریں زنگ آلود ہوگئیں،اوران کے ارد گردچاپلوس لوگوں اور طوائفوں کا جهمگٹا لگا رہتا.
اندرونی اور بیرونی سازشوں نے زور پکڑ لیا،لیکن نشے میں دھت یہ شاہی خانوادےحالات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہ لگا سکے،اورایک عظیم الشان اسلامی سلطنت تباہی سے دوچار ہوئی.آج بھیرنگون شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میںان مغلیہ شہزادوں شہزادیوں کی اولادیںاپنے آباء و اجداد کےقرض چکانے میں مصروف ہیں.بہت ذیادہ دور نہ جائیں۔ انسانی ہمدردی کا چیمپئن برطانیہ جب چائنہ میں اپنے قدم جمانے میں مصروف تها،تب چین کی آبادی کو اپنے زیرِ تسلط رکهنے کیلئے”افیون”کو بطور خاص ہتھیار استعمال کیا گیا تھا.چین کی تین چوتھائی آبادی
افیون کی لت میں مبتلا ہو کرآذادی کی تحریک سے دستبردار ہوگئی.اس زمانے میںچینی خواتین کوبحری جہازوں میں بهر کریورپ اور شمالی امریکہجسم فروشی کیلئے لے جایا جاتا تھا.لیکننشے میں ڈوبی چینی قوم کومزاحمت کرنے کی جرآت نہیں ہوتی تھی.یہی صورتحالوسطی افریقہ کے ممالک کی تهی.پہلے انکی نوجوان نسل کو منشیات کا عادی بنایا گیا،اور پھر بعد ازاںاجتماعی غلام بنا کریورپ یا امریکہ لے جایا گیا.
سن 2014 میںراقم الحروف نے بذات خودماریشس کے دورہ کے موقع پرافریقی ممالک کی غلامی کے اسباب
جاننے کے لیےمقامی لوگوں سے ملاقاتیں کیں.انکی غلامی کے اسباب بہت واضح تهے.یقینی طور پر
افریقی لوگ جسمانی طور پرانتہائی سخت جان اور طاقتور ہوتے ہیں،لیکنایک کمزور قومان پر حاکم بن کر مسلط ہوگئی.منشیات اور بہتر مستقبل کے لالچ نےافریقہ کے عوام کونسل در نسل غلامی میں دهکیل دیا.
عزیز دوستو..!تاریخ بڑی ہی ظالم شئے ہے…کسی نہ کسی طرحاپنے قدموں کے نشانات چهوڑ ہی جاتی ہے،
جو کہآنے والی نسلوں کے لئے تازیانہ ثابت ہوتے ہیں.آج بھی یورپ اور امریکہ میںجا بجا ایسے افراد ملیں گے؛جن کا تخم مخلوط ہے.یعنی انکے آباء میں سے ماں یا باپ
چینی یا افریقی غلام تهے.آج کے یہ مخلوط لوگاپنے آباء و اجداد کی غلطیوں کی قیمت چکا رہے ہیں،
انگریز چاہے جتنا مرضی خود کو”انسانیت کا علمبردار” کہلوائیں،لیکنآج بھی انگریز لوگنفرت انگیز لہجے میںان مخلوط النسل افراد کوحرام تخم کہہ کر بلاتے ہیں.غلاموں کی اولادوں کوہر روز یہ ہزیمت سہنا پڑتی ہے.اور
انکے گھنگھریالے سیاہ بالاور چهوٹی چهوٹی آنکھیں اور چپٹی ستواں ناکببانگ دہل یہ بیان کرتی ہیں کہ
جو قومیں نشے میں مگن ہوجاتی ہیں؛انکی غیرت گروی رکھ لی جاتی ہے،اور پهرقیمت اس قوم کی بیٹیاں چکاتی ہیں”عزیز دوستو…!اس آرٹیکل کا بنیادی مقصدہماری قوم کو یہ بتانا ہے کہفی زمانہمنشیات دراصل ایک ہتھیار ہے،جو قوموں کو غلام بنانے کے کام آتا ہے.منشیات ایک ایسا قلم ہے،جو دور جدید میںزمین کی جغرافیائی حدود طے کرتا ہے.منشیات ایک ایسا نادیدہ پنجرہ ہے،جو قوموں کی آزادی اور غیرت جکڑ لیتا ہے.گزرے زمانے تو ہم نے صرف تاریخی کتابوں میں ہی دیکهے تهے،اپنی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکها تها،لیکنآج کل کے جدید ترین دور میں بھیہماری آنکھوں کے سامنےیہی داستانیں دہرائی جا رہی ہیں.لیکنہماری عقلوں پر پردے پڑے ہیں.ہم بحیثیت قومجان بوجھ کر انجان بنے بیٹھے ہیں.عقل حیران ہو کر رہ جاتی ہے کہانسان اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی
انسانیت سے اتنا گر گیا ہے.وہ زمانہ گزر گیا،جب منشیات صرف عیش و نشاط کا وسیلہ تهی،آج کی تاریخ میں
منشیات ایک بهیانک ہتھیار ہے،خواہ وہ کسی بھی شکل میں موجود ہو.انتہائی افسوسناک المیہ یہ ہے کہ
ہمارے پاک وطن میںدن بدن منشیات کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے،اوراس کا ذیادہ تر شکار نوجوان نسل بن رہی ہے.آجکل تمام تعلیمی ادارےبالخصوص کالجز یونیورسٹیاںمنشیات فروشوں کے نشانے پر ہیں.منشیات کا استعمالاسٹیٹس کی علامت سمجها جاتا ہے.امیر غریب سبهی نشانہ ہیں.نوجوانوں کو بے راہ روی کا شکار بنایا جا رہا ہے.اوراس تمام صورتحال میںہماری حکومتیں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہیں.میں ڈر سا جاتا ہوں
جب میں یہ سوچتا ہوں کہکیا تاریخ پھر سے خود کو دہرانے والی ہے؟؟؟میں سوچتا ہوں کہ
آج ہم لوگ بهیچینیوں اور افریقی قوموں کی طرحغلام بنائے جا رہے ہیں.
منشیات کا ہتھیاراپنا کاری وار کر رہا ہے.لیکنہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں.اگر حکومتی ادارے کچھ نہیں کرتے ہیں،تو کم از کمہم انفرادی طور پر ہی کچھ کر گزریں.بصورتِ دیگر…تاریخ تو ہمارے سامنے ہے کہغلام قوموں کے ساتھانکے آقا کیسا سلوک کیا کرتے ہیں…؟
خیر اندیش:محمد یاسر
نوٹ: ادارہ یس اردو نیوز کا بلاگر یارائٹر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ایسی ہی دلچسپ معلومات پر مبنی تحریر لکھنا چاہتے ہیں تو ابھی ہمیں اپنی تصویر اور فون نمبر کے ساتھ اپنا آرٹیکل ای میل کریں
yesurdu@gmail.com
mail@yesurdu.com