تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین پیپلز ادبی فورم )
کیا یہ کم حیران کن بات ہے کہ میں اپنی آنکھوں سے تاجِ برطانیہ کے ڈوبنے کا منظر دیکھ رہا ہوں۔ شائد کسی کو میری بات کا یقین نہ آئے لیکن یہ نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ کئی صدیوں تک دنیا پر حکومت کرنے والا تاجِ برطانیہ زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ہم نے تاریخ میں رومن ایمپائر اور سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے ہوتے ہوئے دیکھے ہیں ۔ایسی عظیم الشان مملکتیں جن کے نام سے دنیا کانپتی تھی اپنی ہی ریشہ دوانیوں سے تاریخ کے اوراق میں سسکتی اور کراہتی ہوئی محسوس کی جا سکتی ہیں۔
رومن ایمپائر کا تنا ور شجر اسلام کی شمشیرِ برہنہ سے ٹکرے ٹکرے ہوا تھا جبکہ سلطنتِ عثمانیہ کی عظیم الشان مملکت برطانیہ اور یورپی ممالک کی یلغار کے سامنے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی تھی اور اس مملکت کے کئی اہم علاقے اب بھی یورپی اقوام کے زیرِ تسلط ہیں۔جب مملکت ہی نہ رہی تو ان حصوں کی بازیابی کی ہر بنیاد منہدم ہو گئی ہے لہذا کوئی بھی ان علاقوں کی مسلم دنیا کو واپسی کی بات نہیں کرتا۔اسلامی دنیا کی تو اپنی حالت قابلِ رحم ہے کیونکہ یہ خود حصوں بخروں میںبٹی ہوئی ہے اور اس کی کوئی مرکزی اتھارٹی موجود نہیں ہے ۔جب کوئی قوم اپنا مرکز چھوڑ دیتی ہے تو اسی طرح ٹکروں میں بٹ جاتی ہے ۔سیانوں کا قول ہے کہ کسی قوم میں جب انصاف کا خون ہونا شروع ہو جائے تو پھر اس قوم کا مزید زندہ رہنا ناممکن ہو جاتا ہے۔مسقتل اقدار کی جگہ جب شہوت پرستی اور ہم جنس پرستی کا رواج زور پکڑ جائے تو وہ قوم بھی رو بہ زوال ہو جاتی ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ اس لئے صفحہ ہستی سے مٹ گئی کہ اس کے حکمرانوں نے عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھ رکھا تھا۔عیش و عشرت او ر لہو لعب ان کی پہچان بن گیا تھا جس سے باہر نکلنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا جبکہ وہ جنسی تسکین کو ہی دنیا سمجھ بیٹھے تھے لہذا اس لذت سے دامن بچانا اس کے کرتا دھرتوں کے لئے ناممکن تھا۔سچ تو یہ ہے کہ وہ ان سنہری اصولوں سے جس کی بنیاد پر انھوں نے پوری دنیا ہر اپنی دھاک بٹھائی تھی اسے خیرباد کہہ چکے تھے ۔دولت کی چکا چوند سے ان کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں جس سے وہ کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہے تھے ۔ شراب نوشی ،حسن پرستی اور شہوت انگیزی اور جنسی تسکین ان کے معمولاتِ زندگی بنتے گئے جس سے ان کی زندگی کی توانائیاں دم توڑتی چلی گئیں لہذا وہ کسی بھی بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو گئے۔
اغیار نے جب ان پر یلغار کی تو وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئے کیونکہ اپنی توانائیاں تو وہ ان مشاغل کی نذر کر چکے تھے جس سے ہر قسم کی قوت کا فقدان ہو جاتا ہے۔خاندانی عداوتیں، تحت و تاج کی ہوس،محلاتی سازشیں اور پھر رنگ رلیوں اور موج مستیوں نے وہ گل کھلائے کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کا نام و نشان مٹ گیا۔لیکن ایک بات بہر حال اٹل تھی کہ اسلامی ریاست کے مٹ جانے سے نہ اسلام مت سکا اور نہ ہی اسلام کی حقانیت پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان ڈگمگایا ۔انھوں نے غلامی میں بھی اپنی رویات اور ایمان کو سینے سے لگائے رکھا جس کا واضع ثبوت وہ ٥٧ (ستاون) اسلامی ریاستیں ہیں جو اس وقت دنیا کے نقشے پر اپنا وجود رکھتی ہیں۔ایمان مضبوط ہو تو غلامی میں بھی آزادی کی خواب دیکھا جا سکتا ہے لیکن اگر ایمان ہاتھ سے چلا جائے تو پھر سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔
تیری زندگی اسی سے تیری آبرو اسی سے ۔،۔ جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رو سیاہی
برطانیہ میں حالیہ ریفرنڈم نے عوامی ووٹ سے تاجِ برطانیہ کے تاج کو زمین پر پٹخ دیا ہے۔اپنے ہی عوام اپنے ملک کی تنزلی کا باعث بن جاتے ہیں یہ پہلی دفعہ دیکھا ہے ۔سچ کہتے ہیں کہ ریاستی امور چلانا عوام کا نہیں بلکہ قائدین کا کام ہو تا ہے۔عوام اپنے نمائندے تو ضرور منتخب کرتے ہیں لیکن اتنا بڑا فیصلہ ان کی اجتماعی سوچ سے بڑاہوتا ہے۔ برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنا چائیے یا اس سے علیحدگی اختیار کر لینی چائیے قائدین کی منشاء سے پارلیمنٹ کو کرنا چائیے تھا ۔اس طرح کے حساس فیصلے عوامی ریفرنڈم میں نہیں بلکہ اہلِ عقل و دانش کی مجالس میں طے کئے جاتے ہیں۔ یہی ریفرینڈم تاجِ برطانیہ کے ڈوبنے کا نقشِ اول بنے گا اور ایک وقت آئے گا کہ عظیم رومن ایمپائر کی طرح تاجِ برطانیہ کا عروج صرف تاریخ کی کتابوں میں مقید ہو جائے گا۔عوام نے اپنے ذاتی مفادات کے پیشِ نظر یورپی یونین سے نکل جانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ منفی سوچ کا آئینہ دار ہے۔اس فیصلے میں دوسری اقوام سے نفرت کی بو آ رہی ہے۔
برطانوی عوام نے یہ سوچ کر کہ دوسری کم ترقی یافتہ اقوام کے افراد ان سے روزگار کے مواقع چھین رہے ہیں جس سے انھیں معاشی تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے حالانکہ یہ سوچ بنیادی طور پراس انسانی سوچ سے متصادم ہے جو یورپی یونین کا منشور تھا۔کم ترقی یافتہ اقوام کو ساتھ لینا اور انھیں ترقی کی دہلیز تک ان کی راہنمائی کرنا یورپی یونین کا خواب تھا اور اس خوا ب نے یورپی یونین کو بے شمار فوائد سے ہمکنار کیا تھا۔جب روس کی توسیع پسندی اور جارحیت کا خوف تھا تو اس وقت یورپی یونین کی تشکیل درست فیصلہ تھا لیکن جیسے ہی روس کمزور ہوا اور مشرقی یورپ کی کئی اہم ریاستیں روسی تسلط سے آزاد ہوئیں تو روس کی بلا واسطہ جارحیت کا خطرہ ٹل گیا۔ اس خطرے کے ٹلنے نے اس ریفرنڈم کوفتح سے ہمکنار کیا جس سے برطانیہ کا اپنا وجود باقی رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔مختلف اقوام کے درمیان اعلی اور بر تر ہونے کی یہی سوچ تھی جس نے دوسری جنگِ عظیم کی بنیاد رکھی تھی۔یہ سچ ہے کہ کئی دوسری اقوام بھی یورپی یونین سے نکلنے کو بے تاب ہیں لیکن ان کی حیثیت برطانیہ جیسی نہیں ہے۔
ان کے علاقائی اور اندرونی مسائل برطانیہ جیسے نہیں ہیں۔فرانس اور جرمنی کو اپنے ریاست کے اہم بازوئوں کے الگ ہو جانے کاکو ئی خو ف نہیں جبکہ برطانیہ اپنی فیڈریشن کے اہم ممالک کی علیحدگی کے خطرے سے دوچار ہے۔برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنا اس کے لئے خود کشی کے مترادف ہے۔ جسے اہلِ نظر واضح دیکھ رہے ہیں۔کیا اس بات کاتصور کیا جا سکتا تھا کہ وہ ملک جس پر کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا ایک دن ایک انتہائی چھوٹے سے ملک کی سرحدوں تک محدود ہو جائے گا۔سکاٹ لینڈ،آئر لینڈ۔ویلز اور انگلینڈ مل کر برطانوی حکومت کی شناخت بنتے ہیں۔سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ اگلے چند ماہ میں تاجِ برطانیہ کی عملداری سے نکل جائیں گئے اور پھر ایک چھوٹا سا ملک دنیا کے نقشے پر عظمتِ رفتہ کی یاد دلانے کی خاطر باقی رہ جائے گا بالکل ویسے ہی جیسے اٹلی رومن ایمپائر کی یاد دلانے کے لئے موجود ہے حالانکہ اٹلی کی عالمی معاملات میں نہ تو کوئی آواز ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت ہے۔پاکستان اٹلی سے کئی گنا زیادہ عالمی سیاست میں اہم ہے کیونکہ وہ جس خطے میں ہے وہی خطہ عالمی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اسی خطے میں افغانستان،ایران ،یو اے ای ،سعودی عرب اور عراق ہیں جنھیں پاکستان کا ہمسایہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔افغانستان کی تو جغرافیائی نقطہ نظر سے بے پناہ اہمیت ہے لیکن دوسرے ممالک تیل کی دولت کی وجہ سے عالمی دنیا میں دل کی مانند ہیں اور وہ سارے پاکستان کی دسترس میں ہیں۔ہو سکتاہے کہ آنے والے سالوں میں برطانیہ کی ہمسایہ ریاستیں اسے ایک دن ہڑپ کر جائیں بالکل ویسے ہی جیسے اس نے اپنی کئی ہمسایہ ریاستوں کو خود میں ضم کیا تھا اور انھیں اپنے جھنڈے تلے رہنے پر مجبور کیا تھا۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہو، برِ صغیر پاک و ہند ہو،افریقہ ہو یا مشرقِ وسطی ہو تاجِ برطانیہ کے اقتدار سے کسی کو بھی انکار کی مجال نہیں ہے۔امریکہ اور بر صغیر پاک و ہند کئی صدیوں تک برطانیہ کی غلامی میں رہے اور اس کے ظلم وجبر کو مردانہ وار سہتے رہے لیکن اس کے باوجود آزادی کی تڑپ نے ان کے اذہان پر اپنا غلبہ طاری رکھا۔سچ تو یہ ہے کہ جذبے ہی کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جو اس کے عروج و زوال کا حتمی فیصلہ کرتے ہیں ۔آج اسی تاجِ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والا امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے جبکہ پاکستان اور بھارت دنیا کے انتہائی اہم ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔دونوں ایٹمی قوت ہیں اور دنیا ان کی فوجی طاقت سے لرزاں ہے۔آنے والے ایام پاکستان اور چین کے ایام ہیں اور دنیا میں انہی کی برتری کا ڈھول پیٹا جانا ہے۔جب ایسا ہو گا تو برطانیہ ایک تھکے ہوئے ملک کی مانند یہ سارا تماشہ دیکھ رہا ہو گا لیکن اس وقت سب کچھ لٹ چکا ہو گا۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین پیپلز ادبی فورم )