تحریر: مریم جہانگیر، اسلام آباد
14 اگست پاکستان کی آزادی کا دن صرف اور صرف اس حوالے سے جوش اور ولولے کا مظہر بن چکا ہے کہ لوگ جھنڈیوں سے گھروں کو سجاتے ہیں۔ بچے اپنی سائیکلیں تیار کرتے ہیں۔ گاڑیوں پر پرچم لگایا جاتا ہے۔ آزادی کے حقیقی معنی اور آزادی کے سفر کی صعوبتیں اب کسی کو بھی یاد نہیں ہیں۔آج کی نسل کے بچوں سے پوچھا جائے تو عظیم رہنمائوں سے متعلقہ سوالوں کے جواب میں انہیں دینے کو صرف خاموشی ہی سمجھ آتی ہے۔ کوئی بہت ہی ذہین یا تربیت یافتہ ہے تو اسے تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وفات بمعہ سَن یاد ہو گی۔ اس پر ہی والدین کی باچھیں کِھل جاتی ہیں۔
رشتہ دار تالیاں بجانے لگتے ہیںاور بچے کی آنکھیں خوشی سے روشن ہو جاتی ہیں۔ ماضی کے اوراق کو پلٹیں تو آپ کو یاد آئے گا کہ یہ وطنِ پاکستان جو ہم نے بطور اضافی کمیشن حاصل کیا ہے اس کے حصول کے لئے ہمارے بزرگوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیںلیکن نہایت افسوس کے ساتھ اس امر پر توجہ دلانا چاہوں گی کہ قربانیاں صرف لفظ قربانی تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ نئی نسل ان قربانیوں سے ناواقف ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب ان قربانیوں کی تفصیلات سے ماورا ہو چکا ہے۔ پنجاب کے تعلیمی ادارے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے زیرِ تحت جو کتابیں پڑھا رہے ہیںان میں معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان مڈل کی سطح تک ختم کر دی گئی ہے۔ اس کی جگہ تاریخ اور جغرافیہ کے نام سے دو مضامین شامل کر لئے گئے ہیں۔ تاریخ میں پوری دنیا کی تاریخ بیان کر دی گئی ہے۔ موئنجودڑو اور ہڑپہ کے آثارِ قدیمہ سے لے کر فرعون کی لاش تک کو بیان کر دیا گیا ہے مگر وہ قربانیاں اور ان کی تفصیلات جن کی وجہ سے پاکستان کا قیام عمل میں آیاان کا تذکرہ تک نہیں ہے۔
نہم اور دہم کے طالبات کے مطالعہ پاکستان کے نصاب کو دیکھا جائے تو پہلے تین اسباق میں چیدہ چیدہ پسِ منظر کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی قربانی کی تفصیل پیش نہیں کی گئی۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیا قربانی کی تفصیل جیسا گنجلک لفظ استعمال کر رہی ہوں ۔ آئیں اس لفظ کی گہرائی ماپتے ہیں۔ایک نو عمر لڑکی اپنے گھر کے دالان میں آنکھ کھولتی ہے۔ سورج کی کرنوں کے ساتھ ہی قیامِ پاکستان کی خوشخبری اسے موصول ہوتی ہے۔ وہ ماں کو سجدہِ شکر ادا کرتے اور باپ کو باآوازِ بلند کلمہ طیبہ پڑھتے سنتی ہے۔ شام تک خبر آتی ہے کہ بلوائی مہاجرین کی عزت اور جان کے درپے ہیں۔ ماں بیٹی کو اپنے سینے سے لگاتی ہے اسکا ماتھا چومتی ہے۔ اس کے گلے میں سونے کے زیورات ڈالتی ہے اور گلے میں دو چار قمیضیں اور پہناتی ہے تاکہ ان قمیضوں کی آڑ میں تھوڑا بہت ہی سہی سونا بھی سرحد پار پہنچ جائے۔ رات کے اندھیرے میں یہ خاندان اندھیرے کی پناہ لئے اور اللہ سے حفاظت کے طلبگار ہوئے آگ کا دریا پار کرتے ہیں۔
والدین اور بچی آپس میں بچھڑ جاتے ہیں ۔ ایک سکھ اس بچی کے پیچھے لگتا ہے وہ دوڑتی دوڑتی نہر کنارے پہنچتی ہے۔ یہ نہر بھی در حقیقت نالہ ہے اور مہاجرین کی ہجرت میں کھڑی کی جانے والی مشکلات میں سے ایک ہے۔ دریائوں کے بند کھول دئیے گئے تھے تاکہ سیلابی ریلے مسلمانوں کے جوش کو ٹھنڈا کر سکیں لیکن مسلمانوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ یہاں رہے تو آج نہیں تو کل مشرکین کے قدم چاٹنے پڑ جائیں گے۔ لڑکی اس نہر میں کودتی ہے۔ بہتے پانی میں اللہ اس کی جان رکھ لیتا ہے اور وہ مسلمان قافلے سے جا ملتی ہے۔ تین سالوں بعد اسکے والدین اسے واپس آن ملتے ہیں ۔ آپ ان تین سالوں کے ہر ایک سیکنڈ کی تکلیف کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس عورت کو دیکھیں جس کے پستان نامحرم نے کاٹ کر پھینک دئیے۔ ٹہریں! تھکیں مت۔۔۔۔ وہ دیکھیں بلوائیوں نے نیزے پر شیرخوار بچے کو اُٹھا رکھا ہے اور مکروہانہ قہقہے لگا کر بلند آواز میں چلا رہے ہیں۔” یہ ہے تمہارا پاکستان۔ یہ دیکھو پاکستان۔”آپکو وہ سرد لاش نظر آ رہی ہے جسے ہندو فوجیوں نے مردہ حالت میں پایا لیکن اپنے ہاتھوں کو اسے پامال کرنے سے نہ روک سکے۔ اس لڑکی کو بھی دیکھیں جس کا آدھا دھڑ کاٹ کر پھینک دیا گیا ہے۔
یہ جوان دیکھیں جس کی آنکھیں ہی نکال دی گئی۔ مجھے کنوئیں میں تیرتی لاشیں بُلارہی ہیں ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں لہو کی اس لکیر کا تذکرہ کروں جس کی بوند بوند نے سرحد کا یقین کیا تھا۔ وہ لہو جس میں پیر و جواں کے لہو کی لالی مدغم تھی۔ آپ کو آگ لگے گائوں یاد ہیں؟ آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپکی بیٹی بہو کو زبردستی اپنے گھر رکھ لیا جائے اور اسے ہندو بننے پر مجبور کیا جائے ۔ آپ ان نوجوانوں کو جانتے ہیں جو کہتے تھے کہ دنیا کو انگلی پر نچا دیں گے لیکن پاکستان بنا کر دم لیں گے۔ وہ آج پاکستان کے گائوں اور دیہات میں بان کی چارپائی پر پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے کٹے ہوئے بازو ان کو حقّہ پینے کی اجازت نہیں دیتے۔ہم تو شہداء کی تعداد بھی نہیں بتا سکتے ۔ہم کیسے ان آبلوںکا تذکرہ کریں جو اس ہجرت میں مسلمانوں کے سینے پر پڑے ۔وہ کونسا ظلم تھا جو ہوانہیں۔وہ کونسا درد تھا جو سہا نہیں۔ لیکن اب کسی کو کیا یاد ہے؟ یہ ہم ہیں کچھ لوگ جنہوں نے تاریخ کے اوراق کو ادیبوں کے لفظوں کو کھنگالا ۔ ان بڑے بوڑھوں سے یہ ساری باتیں سنی اور انکو دوہرا کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن یہ جس نسل کی بات ہم کر رہے ہیں وہ راتوں میں ان سچے مظالم سے پردہ اُٹھاتی ہے وہ نسل اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ میں نے جتنے واقعات کا ذکر بغیر نام کے کیا ۔ یہ سب قصے میں نے انہی لوگوں سے اپنے کانوں سے سنے ہیںلیکن یقین جانئیے کہ وہ عملاً تفصیر ہیں کہ
دن زندگی کے ختم ہوئے لو شام ہو گئی
پھیلا کے پائوں سوئیں گے کنج فرار میں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کتابیں تو ختم ہو چکی ہیں ۔ شوقِ مطالعہ دم توڑ چکا اور نصابی کتب میں سے بھی اصل تاریخ کو حذف کر لیا گیا ہے۔ اب یہ بڑے بوڑھے بھی جانے کو ہیں ۔ تو کون بتائے گا یہ درد بھری داستانیں ۔جس تن لاگے وہی جانے۔ ہم نے درد سہا نہیں تو ہم اس درد مندی سے ان واقعات کو دُہرا نہیں سکتے جتنی درد مندی سے یہ بوڑھے پیڑ چھائوں دیتے ہیں ۔ اور اگر ان واقعات کو جو ہے جیسے ہے کی بنیاد پر دہرایا نہ گیا تو سرحدیں ختم ہو جائیں گی اور غلامی شروع ہو جائے گی۔ ہمارے نصاب میں ان قربانیوں کی تفصیل ہونی چاہیے گل اور صنوبر کی کہانی، اصغریٰ اور اکبریٰ کے قصوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ہمارے بچوں کو کنوئوں میں تیرتی لاشیں دکھائیں۔ خدارا اتنا بڑا ظلم نہ کریں ہمیں ہماری تاریخ سے محروم نہ کریں۔
تحریر: مریم جہانگیر، اسلام آباد