تحریر : خرم مشتاق
ددھیال سنی اور ننھیال آدھا شیعہ آدھا سنی اور ھم بیچ میں” دبڑ گھسنی”۔ (یہ پنجابی کی اصطلاع ھے جسے سمجھا جا سکتا ھے سمجھایا نھیں جاسکتا جیسے خچر کی اصطلاح بظاہر فوراً اپنا مدعا اور مطلب بتا دیتی ھے مگر اس اصطلاح کی فصاحت و بلاغت سے صرف چند دانا خواص ھی واقف ھوتے ھیں جو اس کے عالمِ ظہور میں آنے کے مشقت خیز عمل سے روشناس ھوتے ھیں) عنفوانِ شباب کے دیگر مسائل کے علاوہ یہ چیلنج درپیش تھا کہ کونسی صورت ھو کچھ اختلافِ امت میں کمی کے باعث بنیں (اگرچہ امت سے زیادہ خاندان کی فکر تھی)۔
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کہیں سوزوسازِ رومی ‘ کہیں پیچ و تابِ رازی
کے مصداق میں نے یہ غور کرنا شروع کیا کہ آخر اختلافات بلکہ مخالفتوں کا منبع کیا ھے۔ کونسے ایسے بنیادی مسائل ھیں جن پر نفرتیں اتنی شدت اختیار کر گئیں کے کافر و بد عقیدہ ھونے کے فتاویٰ بڑے شد و مد سے جاری و ساری رھتے ھیں۔تو کافی غورو غوض اور مشاہدے سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بیشتر اختلافات تاریخ اور تاریخی حوالوں کے باعث ھیں۔ اگرچہ سارے نھیں ‘ بنیادی فقہی مسائل بھی موجود ھیں لیکن نفرت کی شدت پیدا کرنے میں بنیادی کردار کس کا ھے؟؟؟؟ یقیناً ان گھڑی ھوئی کتابوں کا جو تاریخی حوالے بن گئے۔ آج ھم جب کوئی حوالہ تلاش کرنا چاہتے ھیں تو کتنی پرانی کتب موجود ھیں ؟؟؟؟ آج سے سو دو سال قبل کی کتابیں ‘ اور وہ ان سے پرانی اور وہ ان سے پرانی کتابوں کے حوالے دیتی ھیں اور غالب اکثریت ان کتابوں کی اس دنیا سے غائب ھو چکی ھے۔
اب اگر معاملات کو سلجھانا ھے تو سمجھنا اس بات کو ھے کہ جس دن” آلیوم اکملت دینکم” کہا گیا آیا دین مکمل ھوگیا یا نھیں؟؟؟ یقیناً ھوگیا۔ اگر اس بات پر عام شخص متفق ھو جائے جو یقیناً ھو جائگا اگر اسے بتا یا جائے تو۔ اس کا واضح مطلب نکلتا ھے کہ اس دن کے بعد کے واقعات عین دین نھیں۔ نہ عین اسلام ھیں۔ وہ مسلمانوں کی تاریخ ھے۔ مسلمانوں کے مختلف اکابر اور لوگوں نے جو فیصلے اور کام کئے وہ ان کی انفرادی اور اجتماعی سوچ اور عمل کی عکاسی تو ضرور کرتا ھے جس میں اجتہادی غلطیاں اور حسنِ ظن بھی ھو سکتے ھیں لیکن دین کے بنیادی ڈھانچہ کو ان فیصلوں پر منطبق کرنا ایک خوفناک صورتحال کو جنم دیتا ھے۔ جس کے نتائج ھم بھگت رھے ھیں۔
میں مزید ایک قدم آگے جا کر معتدل و روشن خیال لوگوں سے ایک جرات مندا نہ سوال پوچھتا ھوں کہ آیا اگر ‘ خلافتِ ابوبکر رضی اللّٰ ‘ قتلِ عثمان رضی اللّٰ ‘ جنگ جملُ، جنگِ صفین اور واقعہ کر بلا اگر چند لمحوں کیلئے تصور کیا جائے کہ تاریخ میں پیش ھی نھین آئے تو ؟؟؟؟؟ اگر ان واقعات کو تاریخ سے خارج کر دیا جائے تو کیا دین ختم ھوجا ئیگا ؟؟؟ نھیں ۔ تو پھر تاریخ کو تاریخ کی عینک لگا کر پڑھیں اور دین کو دین کی ۔ تاریخ دین نھیں ھے۔ تاریخی حقائق تک پہنچنے کیلئے اپنے مخصوص عقیدہ کی برانڈڈ عینک اتار کر غیر جانبدارانہ تحقیقی عینک لگائیں تو آپ کو چیزیں مختلف دکھنا شروع ھو جائیں گی۔
تاریخ کے طالبعلم کو یہ پورا حق حاصل ھے کہ وہ یہ سوال کرے کہ جو واقعہ وہ پڑھ رھا یا پڑھایا جا رھا ھے وہ واقعہ جس زمانے میں پیش آیا اس زمانے کے معروضی و زمینی حقائق اور اس زمانے میں موجود معاشرتی و سماجی ‘ معاشی تحریکوں کی موجودگی میں ممکن بھی تھا یا نھیں؟؟؟؟ اس سے تھوڑا اور آگے چلیں۔
آج کے جدید ترین دور میں جب ذرائع ابلاغ ‘ ٹیلی فون سلکی و لا سلکی ‘ سیٹلائیٹ چینلز ‘ ریڈیو ‘ سو شل میڈیا کی موجودگی میں اگر رائے عامہ ایک واقعہ پر یکساں اور حقائق یکساں بیان نھیں ھورھےتو کجا جس زمانے میں مسافتیں دِنوں پر محیط تھیں اتنی تفصیلی جزیات ‘ منظر کشی اور داستان گوئی کیسے ممکن ھے۔ مشرف کا مارشل لا اور ۹ -۱۱ جیسے واقعات پر تو رائے عامہ ایک کر کے دکھائیں؟؟؟؟؟ لہذا اپنے دوستوں بھائیوں درخواست ھے آپس میں نفرتیں محض تاریخ اور تاریخ دانوں کی تشریحات پر نہ پیدا کریں۔ بقول اقبال
ذرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے اسے
بڑھا دیا ھے فقط زیبِ داستاں کیلئے
تحریر : خرم مشتاق