تحریر : عزیر اکبر
ہم سب جانتے ہیں کہ بی جے پی یا سنگھ کے تین اہم ایشوز ہیں، رام مندر، آئین کی دفعہ 370 اور ملک میں کامن سول کوڈ کا نفاذ۔ لیکن چونکہ ان تینوں ہی ایشوز سے عوام کو آج کل دلچسپی نہیں ہے اس لئے ان کو چھوڑ کر کچھ دوسرے سماجی وسیاسی مسائل اٹھائے جا رہے ہیں۔ جیسے “مقدس گائے مقدس گائے ” کا مسئلہ آج کل اہم ترین ایشو بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں آئے دن گائے کے تحفظ کے بہانے ظلم و زیادتیوں میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اس ایشو نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ہے۔گائے جو کسی کے لیے مقدس ہے تو اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہوسکتے کہ جن کے پاس وہ صرف ایک جانور ہے، ان کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کی جائیں۔باالفاظ دیگر قانون کو ہاتھ میں لینا کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ وہیں واقعہ یہ بھی ہے کہ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے تب سے ان تمام مجرموں پر قانونی گرفت کمزور ہوئی ہے ، جو گائے کی آڑ میں اپنے خطرناک عزائم غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پھر جس طرح ابھی حال میںگجرات میں مری ہوئی گائے کی کھال اتارنے والے چار دلت نوجوانوں کے پیٹنے کے ویڈیو سوشل میڈیا میں سامنے آئی ہے ، وہ نہ صرف لاء اینڈ آڈر کی خراب صورت حال کو بیان کرتی ہے بلکہ یہ واقعہ اپنے آپ میں بہت سے سوالات بھی کھڑے کرتا ہے۔پولیس کے مطابق ویراول میں متشدد لوگوں نے گزشتہ ہفتے کچھ دلتوں کو اس وقت پیٹا جبکہ وہ جانور کی کھال اتار رہے تھے۔ تاہم بعد میں گجرات میں مخصوص تنظیم نے اپنے کارکنوں کے اس معاملے سے جڑے ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ جن چار دلتوں کو بدمعاشوں نے پورے شہر میں گھومایا اور پیٹا تھا،اس کے بعد چھ بدمعاشوں کو گرفتار کیا گیا، تو وہیں تین افسران بھی معطل کئے گئے ہیں۔
اس المناک واقعہ کے بعد سات مشتعل دلتوں نے پولیس کے مطابق خود کشی کی کوشش کی ۔ وہیں حالات کے پیش نظر ریاست میں وزیر اعلیٰ آنندی بین نے جانچ کا حکم دیا ہے اور چار پولیس ملازمین کو معطل بھی کیا ہے۔وہیں دلتوں کی پٹائی کے بعد احتجاج ایک نئے انداز میں سریندر نگر میں دیکھنے کو ملا ہے۔ جہاں دلت سماج کے لوگ مری ہوئی گائے ٹرکوں میں بھر کرکلکٹردفاتر پہنچ گئے، اور وہاں پھینککر یہ کہتے نظر آئے کہ سنبھالو اپنی مائوں کو۔دلت نوجوانوں کے پیٹنے کی مخالفت کو لے کر احتجاج کا یہ طریقہ پورے گجرات میں شروع ہو چکا ہے۔ لوگ مری ہوئی گائے کو سرکاری حکام کے دفاترپہنچا رہے ہیں۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پر یہ طریقہ مزید وائرل ہو رہا ہے۔ لوگ اسے دلت سماج کے احتجاج کا گجرات ماڈل کا نام دے رہے ہیں۔
دوسری جانب حقیقت یہ بھی ہے کہ گورکشا کے نام پر ہر طرف گلی محلوں میں مظالم کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن مار پیٹ کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن یہ واقعات قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب دادری، بساہڑا میں 28 ستمبر 2015 کو ایک 50 سالہ شخص اخلاق کی گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں ایک گروپ نے پیٹ پیٹ کر اسے ہلاک کر دیا تھا۔ یہ واقعہ فرقہ وارانہ نفرت کا پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل اور بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ چند واقعات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔سال 2014 میں 2 اگست کو دہلی کے نجف گڑھ علاقے کے چھائولا گاؤں میں پولیس چیک پوسٹ پر ایک منی ٹرک کو روکا گیا۔ ایک طرف جب ٹرک کا ڈرائیور پولیس کو جانے دینے کے لئے منا رہا تھا، تبھی کچھ دیہاتی ٹرک کے ارد گرد جمع ہو گئے اور بے رحمی سے ڈرائیور کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔وہیں ہماچل پردیش میں 16 اکتوبر 2015 کو ایک 28 سالہ ٹرک ڈرائیور نومن کو بھیڑ نے گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں پولیس کی موجودگی میں قتل کر دیا۔
9 اکتوبر کو کشمیر کے اودھم پور ضلع میں ہجوم نے 18 سالہ زاہد رسول کو زندہ جلا دیا ،جس کی بعد میں علاج کے دوران موت ہو گئی۔ 11 دسمبر 2015 کو گائے کی حفاظت کے لیے تشکیل شدہ ٹیم نے ہریانہ کے کرنال میں 25 سالہ مزدور کا قتل کر دیا۔ اسی طرح 29 نومبر 2015 گائے اسمگلنگ کے ملزم عابد کوپولیس نے ہریانہ کے تھانیسر قصبے میں مار ڈالا۔ یہاں تک کہ کشمیر کے آزاد ممبر اسمبلی عبد الراشد کو اسمبلی میں بیف پارٹی کے الزام میں پیٹا گیا۔ 2 نومبر کو بی جے پی لیڈروں نے کرناٹک کے وزیر اعلی سددھارامیّا کو گائے کے گوشت کھانے پر سر قلم کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ 18 مارچ 2016 کو جھارکھنڈ میں لاتیہرکے بالومتھ جنگلوں میں دو لوگوں کی لاش درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئی۔ ایک 35 سالہ تو دوسرا 12 سالہ بالوگون اور نوادہ دیہات کا رہائشی تھا۔ یہ اپنی 8 بھینسوں کے ساتھ پڑوس کے جانور میلے میں جا رہے تھے جنہیں راستے میں بھیڑ کی طرف سے روکا گیا اور پیٹنے کے بعد درخت پر پھانسی دے کر لٹکا دیا۔
یہ وہ تمام غنڈہ گردی کے واقعات ہیں جو عام لوگوں کے لاء اینڈ آڈر ہاتھ میں لینے سے پیداہوئے ہیں۔ اس کے برعکس ہریانہ میں گائے کی حفاظت کے لیے 24 گھنٹے کی ہیلپ لائن شروع کی گئی ہے۔ اس ہیلپ لائن سے جہاں ایک جانب گائے کے تحفظ میں مدد مل سکتی ہے، وہیں اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ غنڈہ گردی کے مقابل ،قانونی طریقے سے فیصلہ ممکن ہے ، نیز غیر قانی تشدد کے واقعات میں بھی کمی آئے گی۔دوسری طرف مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے مسئلہ کا حل ،قانونی دائرہ میں ہر جگہ موجود ہے۔ اس کے باوجود گائے کے تحفظ کے نام پر نہ صرف قانون سے کھلواڑ جاری ہے بلکہ قانون کو لاگو کرنے والوں کی پکڑ بھی کمزور ہوتی محسوس ہو رہی ہے ۔سوشل میڈیا پر گجرات کے واقعہ کو لے کر لوگ اپنے خیالات درج کر رہے ہیں جو کسی کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں تو کسی کے لئے حقیقت سے واقفیت کاذریعہ۔ وہیں اس موقع پر یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ سنگھ کا ہندوتو، عام ہندوؤں یا ہندوستانیوں کو قبول نہیں ہے۔
اس کے باوجود میڈیا مارکیٹنگ کی ذریعہ جس طرح وہ آگے بڑھتے دکھائے جا رہے ہیں، سماجی سطح پر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی ہر محاذ پر کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جن وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ وہ حکومت میں آئے تھے وہ سب کے سب جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ مشہور دعویٰ، “سب کا ساتھ سب کا وکاس” تھا۔ ملک کی موجودہ صورتحال بیان کر رہی ہے کہ نہ کسی کا ساتھ ہے اور نہ ہی کسی کا وکاس۔ امیر ، امیر سے امیر تر ہوتاجا رہا ہے تو وہیں غریب اپنی غربت اور مہنگائی کی وجہ سے حد درجہ پریشان ہے۔
اس پورے پس منظر میں اور مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوئے،لازم ہے کہ نہ صرف حکومتوں کو بلکہ عوام کو بھی حل کے لیے موثر کردار اداکرنا چاہیے۔تاکہ دلتوں، پسماندہ طبقات اور معاشرے کے کمزور طبقوں کے مسائل کم ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسانوں کوانسان سمجھا جائے ۔ان کو برابری کا درجہ دیا جائے۔ اور کیوں کے خدا واحد نے دنیا میں انسان کو سب مخلوقات میں افضل حیثیت دی ہے، لہذا اسے کسی سے کمتر یا حقیر نہ جانا جائے۔ اسے عزت و وقار بخشا جائے اور انہیں رنگ ونسل، ذات پات اور مختلف معاشی کاموں کی بنا پر تقسیم کرکے اعلی و ادنیٰ کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر مسائل میں اضافہ ہو گا۔
جو ملک اور اہل ملک، دونوں کے لئے نقصان کا باعث ہے۔ ضروری ہے کہ ان حالات سے نجات پائی جائے خصوصا اُن مسائل سے جن کی بنا پر انسانوں کو انسانوں کے درمیاں ہی تقسیم کیا جاتا ہے، انسانوں کے بالمقابل دیگر مخلوقات کو فوقیت دی جاتی ہے۔نتیجہ میں نفرت کی فضاپروان چڑھتی ہے اور انسان بلاجوازاپنی ہی طرح کے دوسرے محترم انسان کی جان کا پیاسا بن جاتا ہے۔یہ حد درجہ تشویشناک صورتحال ہے،جس کا تدارک لازماً ہوناچاہیے ۔مسئلہ کے حل کے لیے دیگر بہت سے عملی اقدامات میں ایک مثبت قدم مقامی سطح پر بلا تفریق مذہب و ملت معزز و معروف حضرات کی امن کمیٹیوں کا تشکیل دیا جانا ہے۔قبل اس سے کہ ہم ،بذات خود ،مسئلہ کا شکار ہوںاس سلسلے میں پیش رفت کی جانی چاہیے!
تحریر : عزیر اکبر