counter easy hit

گھر واپسی یا مقصد سے وابستگی!

Struggle

Struggle

تحریر : محمد آصف اقبال
انسان کی سرگرمیاں واضح کرتی ہیں کہ اس کی زندگی کا مقصد و نصب العین کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی یہ سرگرمیاں خاموشی کے ساتھ ، ہلکے انداز میں تو کبھی بہت کھل کرمنظم انداز میں انجام دی جائیں۔ سرگرمیوں کا دائرہ اور طریقہ کار کیا ہوگا یہ فرد یا گروہ پر منحصرہے۔پھرسرگرمیاںانجام دیتے ہوئے دیگر افراد و گروہ کے جذبات کا خیال رکھا جائے گا یا نہیں؟حقوق جن کی ضمانت ملک کے آئین میں درج ہے،مقاصد کے حصول میں وہ پامال کیے جائیں گے یا نہیں؟کوئی ایسا عمل یا طریقہ تو نہیں اختیار کیا جائے گاکہ جس سے امن و امان متاثر ہو،آپسی محبت اور بھائی چارے کاخاتمہ ہو،یا پھر فرقہ وارانہ ہم آہنگی جو برقرارہے اس پر زد پڑے،یہ اور اِن جیسے تمام معاملات کے صوابدید وہ افراد و گروہ ہیں جو ایک مخصوص مقصد و نصب العین کے لیے مجتمع و سرگرم عمل ہوئے ہیں۔اس کے بعد دوسرا مرحلہ مقصد و نصب العین سے لگائو ہے،طریقہ کار جو طے کیا گیا ہے اس پر حد درجہ اعتماد ہے،فکراور نظریہ کے فروغ میں منزل مقصود پر غیر متزلزل نگاہ،اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے نصب العین کی جانب پیش قدمی کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا۔ یہ تمام باتیں مل کر فرد و گروہ میں خود اعتمادی بحال کرتی ہیں۔لہذا ایسے افراد منزل کی جانب جب قدم بڑھاتے ہیں تو ہر لمحہ اور ہر لحظہ وہ ان رکاوٹوں کو بھی خوب اچھی طرح سے محسوس کرتے ہیں جو کل ان کی راہ میں مشکلات بن کر سامنے آنے والی ہیں۔یہی وہ شعور نصب العین ہے جو زندگی ہی میں فرد و گروہ کو کامیابی سے ہمکنار کردیتا ہے۔کچھ ایسے ہی مقاصدموجودہ ہندوستان کی حالیہ حکومت کے بننے سے قبل اور اس کے بعد مخصوص فکر و نظریہ سے وابستہ افراد کے دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں،جس کی جانب وہ لگاتار پیش قدمی کیے جا رہے ہیں۔

گفتگو کا پس منظر گزشتہ دنوں آگرہ کی ایک کچی بستی میں رہنے والے تقریباً 50 غریب مسلمان خاندانوں کو ‘گھر واپسی’ کے نام پر ہندو بنانے کا دعویٰ ہے۔تقریب کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی تھیں جن میں ٹوپی پہنے ہوئے کچھ مسلمان ایک ہندو مذہبی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔جس کے بعد پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکمراں بی جے پی پر ملک کے سیکولر اصولوں سے کھلواڑ کرنے کا الزام لگایا۔برخلاف اس کے جن مسلمانوں کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھوں نے خود اپنی مرضی سے ہندو مذہب قبول کیا تھا، ان کا اب الزام کہ انھیں دھوکے سے تقریب میں بلایا گیا تھا اور تنظیم کے مقامی رہنماؤں نے انھیں راشن کارڈ اور شناختی کارڈ بنوانے کا لالچ دیا تھا۔وہیں دوسری طرف بجرنگ دل کے مقامی رہنما اجو چوہان کا کہنا ہے مسلمانوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا تھا اور اب وہ ‘خوف’ کی وجہ سے ان پر الزام لگا رہے ہیں۔اس کے برعکس مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے تقریب میں شریک ہوئے تھے اور انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھیں ہندو بنایا جارہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ کوڑا اٹھانے کا کام کرتے ہیں اور تعلق مغربی بنگال اور بہار سے ہے۔ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ قائم کیا ہے کیونکہ ملک میں لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانا ایک جرم ہے اور مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ضلعی انتظامیہ کو مطلع کرنا ضروری ہے۔

وہیں دوسری طرف ایسی ہی ایک مزید تقریب کے انعقاد کی تیاریاں جاری ہیں۔اور اسی سلسلے میں سرگرم وشوہندو پریشدکے برج صوبے کے صدر پرمود جاجو کا کہنا ہے کہ علی گڑھ میں مجوزہ کرسمس کے موقعہ پر منعقد ہونے والے پروگرام کو تبدیلی مذہب کہنا غلط ہے ۔کیونکہ ہم صرف ان لوگوں کو واپس بلا رہے ہیں ،جو پہلے مختلف وجوہات کی بنا پر ہندو مذہب کو چھوڑ کر گئے تھے۔لہذا یہ گھر واپسی کا پروگرام ہے۔پروگرام کے تعلق سے تیاری یہ ہے کہ اگر حکومت پروگرام پر پابندی لگاتی ہے اور ہندو رہنمائوں کی گرفتاری ہوتی ہے ،تب بھی پروگرام میں لوگ پہنچیں گے۔اس کے لیے دو دو تین تین ٹیمیں تیار کی جا رہی ہیں۔چاہے شکل بدل کر جانا پڑے یا دیگر کسی بھی طرح ،مگر پروگرام ضرور ہوگا۔ایک لمحہ کے لیے ٹھہریں اور توجہ فرمائیں کیا یہ دل و دماغ پر چھائی دھن نہیں؟جس کاگرچہ طریقہ بھی غلط اور مقصد بھی غلط ،اس کے باوجودمنظم منصوبہ بندی اور حد درجہ مقصد سے وابستگی نے افراد و گروہ کو حوصلہ بخشا ہے،یہاں تک کہ وہ ہر مسئلہ سے الجھنے کے لیے قبل از وقت اپنے آپ کو تیار پاتے ہیں۔

چونکہ گفتگو “گھر واپسی”کی ہو رہی ہے، لہذایہاں یہ جاننا بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں کو وہ گھر آنے کی دعوت دے رہے ہیں،یادیگر مذاہب کے لوگوں کو ایک بار پھر،بقول شخصے گھرواپسی کروائی جا رہی ہے،اس گھر واپسی میں ،گھر سے بھاگنے اور گھر چھوڑنے کی اصل وجہ کیا ہے؟یہ جاننا اس سے زیادہ اہم ہے ،کہ ‘انہیں’گھر واپسی کروائی جا ئے۔تصور کریئے ایک ایسے گھر کی ،جو صرف تصورات میں موجود ہولیکن حقیقت میں وہ گھر ہو ہی نہیں۔جس طرح انٹرنیٹ کی تصوراتی دنیا میں آپ کے دوست احباب کی ایک طویل فہرست موجود ہے،لیکن جب جنازہ اٹھایا جائیتو اس طویل فہرست کے احباب میں سے کوئی بھی آپ کو کاندھا دینے والا نہ ہو۔ٹھیک اسی طرح وہ گھر جس میں واپسی کی بات کہی جا رہی ہے،جنازہ دفن ہونے کے بعد،اچانک اس تصوراتی گھر کا غائب ہو جانا یا وجود ہی نہ پایا جانا۔اگر یہی گھر واپسی ہے،تو ایسے گھر میں واپسی کا کیا حاصل؟لیکن معاملہ درحقیقت یہ نہیں ہے،معاملہ تو پیٹ سے وابستہ ہے،اور وہ بھی ایسے شکست خوردہ بھوک کے ماروں کا جن کے دن کا آغاز و اختتام ہی روٹی کے چند ٹکڑوں سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔اور واقعہ بھی یہی ہے کہ جب “انہیں”معمولی درجے کے سہارے دینے کے وعدے کیے گئے،تو انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے سروں کو ٹوپیاں سے کیوں ڈھانکا جا رہا ہے، وہ اس ہون میں گھی اور تیل کیوں چھڑک رہے ہیںجو ان کے شب وروز کا حصہ نہیں،وہ کیوں ایسے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں جو ان سے مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہی نہیں۔وہ تو صرف بھوک و پیاس کے مارے ہوئے تھے،گندگی اور کوڑے کی بدبو دن رات برداشت کرنے والے ،حقیقی زندگی کی خوشبوئیں سے محروم تھے۔

سورج کی تیز تپش اور قلب و روح تک کو منجمد کرنے والی ٹھنڈ ، جن کے دلوں اور دماغوں کو منجمد کرچکی ہووہ کیا جانیں “تشخص “کس بلا کا نام ہے۔اس سب کے باوجود جب حقیقت سے وہ واقف ہوئے،تو وہ بے چین اور بے قرار ہو گئے۔رب العالمین کے سامنے روئے اور گڑگڑائے ،جو غلطی نا واقفیت کے بناپران سے سرزد ہو گئی تھی اس کی تلافی کے لیے دعائیںکیں،بلاآخر ڈھونگ سے پردہ اٹھ گیااور حقیقت پوری طرح آشکارا ہو ئی۔اس موقع پر بات یہیں ختم نہیں ہوتی،سوال یہ بھی اٹھنا چاہیے کہ جس ملت کا وہ سرمایہ ہیں،کیا وہ ملت ان پر توجہ دے رہی ہے؟قوم و ملت کے جیالے،اُن لوگوں کے خلاف محاذ کھولنے کو تیار ہیں،جو ملت کے افراد کوکبھی ڈرا دھماکر تو کبھی لالچ دے کر ،’گھرواپسی’کی بات کرتے ہیں۔لیکن اِس ملت کے وہ خوشحال افراد جن کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے بے انتہا نوازا ہے،نعمتوں کا ایک حقیر حصہ بھی بھوک و پیاس اور گھر وںسے محروم لوگوں پر خرچ کرنے کو تیارنہیں۔ہاں اگر ان کے سامنے ہاتھ پھیلایا جائے تو پہلے وہ خدا کے عطا کردہ جسم اور اس کی توانائیوں پر ایک طویل لیکچر دے کر خوب ذلیل کرتے ہیں،اوربعد میں حقارت بھری نظروں کے ساتھ روپیہ دو روپیہ تھماتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔توجہ فرمائیں اللہ کی نظر میں ذلیل و حقیر کون ہے؟وہ جو وسائل زندگی سے محروم ہیں یا وہ جو سب کچھ رکھنے کے باوجود،محرومین ومستحقین کونہ کچھ دینے کو تیار ہیںاور نہ ہی ان کے لیے کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟اور یہ کچھ دینا اور کرنا،صرف مال و دولت سے ہی متعلق نہیں ہے،بلکہ اللہ کی عطا کردہ وہ تمام نعمتیں اس میں شامل ہیں جنہیں ہم،وقت،صلاحیت،اثر و رسوخ اور علم و ہنروغیرہ سے جانتے ہیں۔کیا کوئی ایسا ہندوستان میں مسلمان ہے جو لینے والوں کی بجائے دینے والوں میں شمار ہوتا ہو،جس کا ہاتھ نیچے والوں کی بجائے اوپر والوں میں ہو،اور پھر بھی وہ ،محرومین ومستحقین کے لیے کچھ نہ کرسکے؟نہیں ایسا کوئی شخص نہیں ہے۔چاہے وہ مرد و یا عورت،جوان ہو یا بوڑھا۔

اگر اللہ نے اسے اوپر ہاتھ والوں میں شامل کیا ہے،تو وہ بہت کچھ کر سکتا ہے۔ضرورت ہے کہ اپنے آس پاس نگاہ دوڑائی جائے،حقیقت سے واقفیت حاصل کی جائے،اسلام سے شعوری وابستگی اختیار کی جائے،اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہوا جائے۔لیکن کچھ عرصہ مزید ایسا نہیں کیا گیا تووہ دن بھی دور نہیں جبکہ چیخنے چلانے والے گلے مدھم پڑجائیں،جو نعمتیں میسر ہیں وہ واپس لے لی جائیں ،اور چند لمحے نہیں گزریں کہ اوپر والے ہاتھ نیچے اور دینے والے ہاتھ مانگنے والوں میں شمار ہوجائیں۔کیونکہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی،اور جن مشکلات میں انسان دوچار ہوتا ہے،درحقیقت وہ اس کے اپنے ہی اعمال ہوتے ہیں،جو اسے بلندیوں سے پستیوں میں اور عزت سے ذلت میں مبتلا کردیتے ہیں نیز آزمائشیں اور مشکلات جن سے انسان دوچار ہوتا ہے وہ بھی خود اسی کے اعمال کا نتیجہ ہیں۔یہی بات اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے:”اور تمہیں جو بدلہ بھی دیا جارہا ہے انہی اعمال کا دیا جارہا ہے جو تم کرتے رہے ہو”(الصّٰفٰت:٣٩)۔لہذا ہردوپہلوئوں پر توجہ دی جانی چاہیے۔ضرورت مندوں کی مدد اورذلت و پستی سے نکالنے کی منظم سعی و جہد کے ساتھ بندگان خدا کو اسلام سے شعوری واقفیت پہنچائی جائے۔سب سے پہلے واقعہ کے پس منظر میں متاثرہ افراد اور ان جیسے دیگر افرادکو ہدف بنایا جائے ساتھ ہی بلاتفریق مذہب و ملت تمام انسانوںکی “حقیقی گھر واپسی”کرائی جائے۔ممکن یہ عمل اللہ کو پسند آجائے اور ذلت و خواری سے اللہ ہمیں محفوظ کر دے!۔

Muhammad Asif Iqbal

Muhammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com