counter easy hit

نہ گھر کا نہ گھاٹ کا

Libertarian

Libertarian

تحریر : ملک محمد سلمان
لبرل ہونا ایک قابل قبول رویہ ہے کہ آپ کے فعل سے کسی کی دل آزاری نہ ہو لیکن یہاں ملحدوں کا معاملہ یکسر مختلفہے لبرل تو درکنار وہ سیکولر کہلانے کے بھی قابل نہیں ہیں بلکہ فسطائیت کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔سیکولرزم کے برعکس فسطائیت ایک دوسری اصطلاح ہے،فسطائیت یافاشزم کا مطلب ہے کہ کسی سرکاری یاسماجی ادارے کا اپنے نظریات کو جابرانہ طریقے سے سماج پر تھوپنا بالفاظ دیگرایسی سیاسی فلاسفی یا تحریک جو بزعم خود اپنے آپ کو قوم سمجھتے ہوئے آمرانہ رویہ اختیارکرے اورمخالف آوازوںکو کچل ڈالے۔ دوسروں کی بات نہ سننے اورمخصوص ایجنڈے کا پرچار کرنے والی اکثر فسطائی تنظیمیں بھی خود کوسماجی تنظیم ہی کہتی ہیں۔

انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی آڑمیںبیرونی ڈالروں کے عوض فحاشی و بے راہ روی کے ترویج کیلئے کوشاں عاصمہ جہانگیر،فرزانہ باری اور ماروی سرمد جیسی خواتین بدتمیزی اور اونچی آوازکے ساتھ مردانہ وارشعائر اسلام کا مذاق اڑاتی پھرتی ہیں۔اختلاف رائے رکھنا جمہوری حق ہے لیکن ملحدوں میں اکژیت ایسے خواتین و حضرات کی ہے جو دلیل سے بات کرنے اور سننے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں۔ برابری اور مذہبی و شخصی آزادی کے ٹھیکداروں کادہرا معیار سب کے سامنے عیاں ہے کہ سماج باہمی احترام اور مذہبی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے لیکن یہاں معاملہبرعکسہے ملحدوںکے نزدیک عزت و تکریم کا حق صرف لنڈے کے انگریزوں کو حاصل ہے جبکہ برقعے اور ڈاڑھی والوںکا جتنا مرضی مزاق اڑالیں ان کو عزت کا کوئی حق حاصل نہیں۔

عجب دور آگیا ہے جو جتنا اسلام ،پاکستان اوراپنے اداروں کے خلاف زہر اگلے وہ اتنا بڑا دانشور سمجھا جاتا ہے۔ علم و شعور کے پیمانے ہی بدل چکے ہیں جو دین اور وطن سے بیزاری ظاہر کرے اور دنیا جہان کے کیڑے اپنے ملک میں نکالے اسے بہت بڑا سیکولر سمجھا جاتا ہے۔ یہ طبقہ جمہوریت کا بھی لفاظی کی حد تک بڑا علمبردار ہوتا ہے مگر عملی طور پر جمہوریت سے کوسوں دور ہے۔ مجھے کوئی ملحد یہ سمجھائے کہ تم اپنے نظریات کو اکثریت پر چرب زبانی سے تھوپنا چاہتے ہو یہ کہاں کی جمہوریت ہے۔

Islam

Islam

مغربی این جی اوز کے ساتھ ڈالروں میںایمان کا سودا کرنے والے ان گنت مسلمان ہیں جو اسلام سے بری طرح خائف ہیں اور موقع ملنے پر حرف زنی کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اللہ اور اس کے رسولۖ کی مقرر کی ہوئی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں اور کوئی ٹوکے تو یہ کہہ کر اس کی زبان بند کرا دیتے ہیں کہ ہم آپ سے بہتر مسلمان ہیں۔وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہوتی ہے اور دنیا کاہر مذہب اور طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ وطن سب سے پہلے،ایسے میںافسوس ہے ان پاکستانی دانش فروشوںپر جنھوں نے معمولی فائدے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرلیاجو ڈالروں کے عوض ملک کو کھوکھلا کرنے والے دشمنوں کا آلہ کار بن کر بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں۔

اسلام کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے انسانیت دشمن طالبان کے خونریز مقاصد کو جاننے کے بعد تمام مکتبہ فکر کے مسلمانوں نے ان سے بریت اور اظہار لاتعلقی کر دیا ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ ملحدوں کا ہے جنھوں اپنی روزی روٹی کی امید اللہ کی بجائے مغربی آقائوں کی خوشی میں سمجھ لی ہے۔اس خطرناک گروہ نے ابتدا میں لبرل اور سیکولرکا لبادہ اوڑھ کر مذ ہب سے ہٹ کر انسانیت کا ڈرامہ رچایا لیکن بہت جلد انسانیت سے عاری انسانیت دشمنوں کا مکروہ چہرہ سب پر عیاں ہوگیا کہ ان کا مقصد سیکولرزم کی آڑ میں کچھ اور ہی ہے۔

ملحدوں کی بڑھتی ہوئی اسلام دشمنی اور افواج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا سے یہ بات مخفی نہیں رہی کہ ان کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔آئے روز مختلف مذہبی و سیاسی شخصیات اور ملکی اداروں کے خلاف زہر اگلنے والے ملحدوں نے وطن عزیزپاکستان میں فرقہ واریت اور قومیت کو تیزی سے ہوا دینا شروع کردی ہے جس سے ملکی امن کی فضاء بری طرح متاثر ہورہی ہے اور گروہی فسادات کے خدشات لاحق ہیں۔

Peace

Peace

اس تمام تر صورت حال میں پر امن اور محب وطن لبرل بھی انتہائی دکھ کی کیفیت میں ہیں۔اس ظمن میں لبرل فورم پاکستان کے چئیرمین محمد انور کا کہنا ہے کہ مذہبی ،سیاسی و سماجی شخصیات کی تضحیک کرنے والے تکفیری ذہن کے حامل شرپسند عناصر جو لبرلزم کا سہارا لیکر فحاشی کے فروغ اور معززین کی پگڑیاں اچھالنے کے ساتھ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت میں مصروف عمل ہیں وہ معاشرے کا ناسور ہیں۔ لبرل فورم کے قیام کا مقصدکسی بھی طرح سے بد امنی اورفحاشی کا فروغ نہیں بلکہ آئین پاکستانی کی بالادستی میں رہتے ہوئے پر امن جدوجہد کے ذریعے معاشرے سے عدم برداشت کے رجحان کو ختم کرکے سب کو برابری کے حقوق اورمذہبی،سیاسی،سماجی اور انفرادی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے بہتر انسانی اصولوں سے روشناس کروانا ہے۔

آزادی کی حد وہاں تک ہے جہاں سے دوسروں کی آزادی سلب نہ ہو، آزادی کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ آزادی کی آڑ میں شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے ، عدم برداشت ، مذہبی منافرت اورفرقہ واریت کے فروغ جیسی ملک دشمن حرکات شروع کردیں،ایسے مذموم مقاصد رکھنے والے تشدد پسند اور عدم برداشت کا درس دینے والے منفی عناصر سے لبرلزم کا کوئی واسطہ نہ ہے۔

لبرل فورم پاکستان کے چئیرمین کے اس بیان کے بعد مجھے مشہور زمانہ کہاوت یاد آرہی ہے کہ”دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا”ملحدوں کی مثال دھوبی کی اس کتے جیسی ہے جو ہڈی کے لالچ میں اپنے مالک کے ساتھ نمک حرامی اور دغا بازی کرتا ہے اور باہر سے بھی ذلت و رسوائی ہی اس کا مقدر بنتی ہے اور یوں وہ نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔

Malik Salman

Malik Salman

تحریر : ملک محمد سلمان
03008080566