تحریر: شاہد شکیل
سترہ سو پچپن میں جرمنی کے شہر مائیسن میں پیدا ہونے والے سیموئیل ہانے مَن نے بیماریوں کے علاج اور شفایابی کیلئے جڑی بوٹیوں سے ہومیو پیتھی دریافت کی اور میڈیکل تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی پریکٹس کا آغاز کیا اُس زمانے میں معالجین زخموں کا علاج کرنے کیلئے مخصوص تیل سے انہیں جلایا کرتے یا ایسڈ کی ملاوٹ سے کریم تیار کی جاتی اور زخموں پر لگایا جاتااس قسم کے علاج سے مریض کے جسم میں زہر پھیل جاتا اور وہ دیگر انجانی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا، سیموئیل ہانیمن اکثر دورانِ تعلیم اس قسم کے علاج کا مشاہدہ کیا کرتا اور ان تمام تجربات کو رد کر دیتا بعد ازاں ذاتی پریکٹس اور نت نئے تجربات کرنے اور مختلف بیماریوں کے علاج کا طریقہ ہومیو پیتھی سے ایجاد کیا جس میں تھیراپی بھی شامل تھی۔
مثلاً بخار کی صورت میں درجہ حرارت کو کم یا ختم کرنے کی بجائے بڑھانے کی دوا استعمال کرتا ( تھیو ریٹیکل اس قسم کا علاج صحت مند انسان کو مزید بیمار کرنے کے مترادف ہے) لیکن اس کا خیال تھا کہ جسم کے درجہ حرارت کے بڑھنے سے پسینہ آئے گا اور جسم میں موجود تمام جراثیم پسینہ آنے کی صورت میں ختم ہو جائیں گے،وہ آئے دن دواؤں کی ایجادات میں تبدیلیاں ،منفی یا مثبت نتائج کو مد نظر رکھ کر کئی تجربات اور مریضوں کا علاج کرتا رہتا اور جب تک مریض شفایاب نہ ہو علاج جاری رکھتا،اس کا کہنا تھا فعال و اجزاء کے بغیر نتائج سامنے نہیں آتے ،ہومیو پیتھی کے علاج میں جو اجزاء شامل ہوتے ہیں وہ ماڈرن فزکس یا کیمسٹری کی دریافت سے مطابقت نہیں رکھتے ہومیو پیتھی فطرت کے قوانین کے عین مطابق علاج کا واحد ذریعہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ بیماریوں کے علاج کیلئے ہومیو پیتھک موتیوں کی پاور ،اسکے طریقہ کار اور شفایابی پر مکمل یقین رکھتے ہیںکیونکہ خاص طور پر روزمرہ کی شکایات میں ہومیو پیتھی علاج مدد گار ثابت ہوتا ہے لیکن اس علاج کی افادیت پر شک اور تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔
حالیہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں تقریباً ہر دوسرے فرد نے ہومیو پیتھک دواؤں کا استعمال کیا ہے اور ان میں سے تین چوتھائی ہومیو پیتھی علاج سے مطمئن ہیںان کا کہنا ہے ہومیو پیتھی پہلے سے زیادہ مقبول ہے کیونکہ متبادل شفایابی کا طریقہ کار پہلے سے زیادہ آسان اور کامیاب ہے دو سو سال سے زائد پرانے علاج کی کامیابی خام مفروضوں پر مبنی نہیں بلکہ ہومیو پیتھی علاج اور اس کی مقبولیت شفایابی گارنٹی کا حصہ بن چکا ہے،جرمن ہیلتھ میگزین نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ دو ہزار تیرہ میں تقریباً نصف ارب یورو کی ہومیوپیتھی ادویہ خریدی گئیں ،بیس فیصد ڈاکٹرز اور طبی پریکٹیشنرز نے ہومیو پیتھی علاج کے مشورے دئے اور اسی فیصد لوگوں نے براہِ راست فارمیسی سے ادویہ خریدیں۔
ڈُو سل ڈورف اور گو ٹنگن یونیورسٹی میں معالجین ،محقیقین اور ریسرچرز نے ہومیو پیتھی کا جائزہ لینے اور مشاورت کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک ڈاکٹر اپنے مریض سے بیماری اور دورانِ علاج ہر گیارہ اور چوبیس سیکنڈ بعد مداخلت کرتا اور مریض کی بات مکمل نہیں ہونے دیتا جبکہ ہومیو پیتھی ڈاکٹرز ابتدائی مرحلے میں اپنے مریض کے ساتھ ایک گھنٹہ تک بیماری اور علاج سے متعلق تفصیلاً اور سنجیدگی سے گفتگو کرتے اور معیاری علاج کے علاوہ مریض کو محسوس کرواتے ہیں کہ وہ ہومیو پیتھی علاج سے یقینا جلد شفا یاب ہو جائے گااکثر ہومیو پیتھی ڈاکٹرز تھیراپی کا بھی مشورہ دیتے ہیں جس سے مریض مطمئن اور علاج پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے روائتی ادویہ کے برعکس ہومیو پیتھی علاج پر انحصار کرتے ہیں۔
ہومیو پیتھی میں دو ہزار سے زائد قدرتی اجزاء مثلاً جڑی بوٹیاں استعمال کی جاتی ہیں ،روزمرہ کی شکایات جیسے کہ نزلہ ،زکام ،بخار اور کھانسی کی صورت میں ہومیو پیتھی علاج نہایت کامیاب ہے ،خواتین کی اکثر بیماریوں مثلاً مختلف جسمانی تکالیف کی شفایابی کا بھی مکمل علاج کامیابی سے کیا جاتا ہے علاوہ ازیں نیند میں خلل ،معدے یا جلدی بیماریوں کا علاج بھی کامیاب قرار دیا گیا ہے۔
ہومیوپیتھی کا بادشاہ کرسٹیان فریڈرچ سیموئیل ہانیمن دس اپریل سترہ سو پچپن میں جرمنی کے شہر مائیسن میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین مٹی کے برتنوں پر مصوری کیا کرتے تھے،غربت لیکن شرم وحیا کے پابند خاندان میں پیدا ہونے والے سیموئیل نے اچھی تعلیم حاصل کی اور سکالر شپ پائی۔ سترہ سو پچہتر میں جرمنی کے شہر لائیپ سِگ اور آسٹریا کے شہر ویانا میں ادویات اورکیمسٹری کی تعلیم حاصل کی،دورانِ تعلیم طبی کتب کے تراجم کیا کرتا۔
سترہ سو ستتر میں لائیبریرین کی حیثیت سے جاب کرتا رہا۔ سترہ سو اناسی میں ایر لانگن یونیوسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اور جرمنی کے مختلف اسپتالوں میں ڈاکٹر کی حیثیت اور دوا خانوں میں کام کرنے کے علاوہ کئی کتب تحریر کیں۔ سترہ سو بیاسی میں دوا خانے کے مالک کی بیٹی سے شادی کی اور آٹھ بچوں کا باپ بنا،اگلے چند سالوں میں انتھک محنت کے بعد اٹھارہ سو دس میں میڈیسن اور بالخصوص ہومیو پیتھی سے متعلق دو نئی کتب کی اشاعت کے بعد کسی تعارف کا محتاج نہ رہا۔ اٹھارہ سو تیس میں اسکی شریک حیات کا انتقال ہوا،اور اپنی چار بیٹیوں کے ساتھ بدستور ہومیو پیتھی کے تجربات کرتا رہا۔ اٹھارہ سو چونتیس میں سیموئیل کی ملاقات ایک فرانسیسی مصورہ میلانی سے ہوئی جو بغرض علاج اسکے دوا خانے میں آئی ،اسی سالہ سیموئیل پینتیس سالہ عورت کی محبت میں گرفتار ہوا اور یہ محبت اسے پیرس لے آئی،پیرس میں ایک معروف ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرتا رہا اور دو جولائی اٹھارہ سو تینتالیس میں نمونیا کے باعث انتقال ہوا۔
تحریر: شاہد شکیل