تحریر:مسز جمشید خاکوانی
”آخر کار گورنر پنجاب چودھری سرور نے استعفیٰ دے ہی ڈالا۔وہ ایک لمبے عرصے تک کرب میں مبتلا رہے جب کچھ نہ بن پایا تو بھریا میلہ چھوڑ دیا ۔وہ جس معاشرے سے آئے تھے ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ہم کتنے ”لاعلاج ” ہو چکے ہیں ۔میں سب ٹھیک کر دونگا یہی سوچ کر آئے اور آتے ساتھ ہی سانحہ ماڈل ٹائون سے واسطہ پڑ گیا ۔چودھری صاحب نے ایسا اندھیر کب دیکھا ہوگا کہ پولیس اپنے ہی شہریوں پہ چڑھ دوڑے ،صوبے کا حاکم ایف آئی آر نہ کٹنے دے ،مجرم خود تفتیشیں کریں ،ملزم آعلیٰ عہدوں سے نوازے جائیں ،نابینا پولیس سے دھکے کھائیں ،معصوم بچے لاٹھیوں سے نوازے جائیں ،جہاں بھوک سے بچے مرتے ہوں ویکسینیشن نہ ملنے سے معذور ہوتے ہوں
جہاں کے ہسپتالوں میں درجنوں بچے محض آکسیجن نہ ملنے سے مر جائیں ،ہسپتالوں میں چوہوں کے کاٹنے سے مر جائیں ،اور دھشت گرد سکولوں میں جا کر معصوم بچوں اور اساتذہ کو ذبح کرتے ہوں ،گولیاں مارتے ہوں ،زندہ جلاتے ہوں ،جہاں کی سب سے بڑی عدالت ٹماٹروں اور سموسوں پہ تو سو مو ٹو ایکشن لیتی ہو مگر انسانی گلے کاٹنے والوں کو باعزت بری کرتی ہو ،جو ایک منتخب وزیر اعظم کو تو توہین عدالت پر عہدے سے ہٹا دے مگر قومی مجرم کو ملک سے بھگا دے ۔۔۔۔ان اتنی ساری بڑی بڑی باتوں میں گورنر پنجاب کو صرف دو باتیں بری لگیں کہ یہاں روزانہ عورتوں کا ریپ ہوتا ہے ،اور مجرم پانچ ہزار دے کر چھوٹ جاتا ہے ۔آخر عمران خان صاحب کیوں اٹھارہ سال سے صرف انصاف انصاف کر رہے ہیں اس لیئے کہ جہاں انصاف صرف طاقتور کو ملے اور کمزور ہر حال میں رگڑا جائے وہ معاشرے قائم نہیں رہتے
ایک چھوٹی سی بات کرتی ہوں جن عورتوں کو طلاق ہو جاتی ہے اُن کے لیے حق مہر کا حصول کتنا مشکل ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اُلٹا پیسے والوں کے لیے زیادہ مشکل ہے کیو نکہ اُن کو یہ طعنہ بھی سُننا پڑتا ہے کہ کتنے بے غیرت ہیں اتنے پیسے والے ہو کر بھی بیٹی کی حق مہر کے لیے عدالت کچہری پہنچ گئے ہیں اس لیے بہت سے لوگ محض اس وجہ سے اپنی بہن یا بیٹی کے حق سے دستبردار ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کہ کون عدالتوں میں جا کر خوار ہو سالوں خواری الگ اور حق مہر سے بھی زیادہ پیسہ انصاف کے حصول میں لگ جاتا ہے لڑکی کو طرح طرح کی الزام تراشیوں کا سامنا الگ کرنا پڑتا ہے اور زندگی کے کتنے ہی قیمتی سال حق مہر کے حصول کی نظر ہو جاتے اکثر کے سروں میں چاندی اُتر آتی ہے طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ اکثر سسرال والے لڑکی کے جہیز کا سامان بھی واپس نہیں کرتے اگر مدت بعد واپس کریں بھی تو آدھے سے بھی کم وہ بھی ٹوٹی پھوٹی حالت میں۔۔۔!
ہمارے ایک ٹیلر ماسٹر تھے نہایت شریف نیک نام عبدلرحمٰن نام تھا اُن کا جب کپڑے سلوانے ہوتے ہم ان کو گھر بُلوا لیتے سفید داڑھی سر پے ٹوپی ،اکہرے بدن کے لیکن نہایت چست سویرے باقائدگی سے نماز کے بعد سیر کو جانا ان کے معمول میں شامل تھا غرض وہ ایک انتہائی نیک سیرت مسلمان تھے دھیمی آواز میں بولنا اور کسی کو تکلیف نہ دینا ان کا شیوہ تھا
آخری بار جب میں نے اُنھیں کپڑے سینے کے لیے بلوایا (ہم اُن دنوں رحیم یارخان میں تھے ) میں نے انھیں بہت نڈھال اور متفکر پایا پوچھنے پر بولے بیٹا! آپکو معلوم ہے کچھ عرصہ پہلے میںنے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کی تھی بہت خوش تھا کہ عزت سے آخری فرض بھی پورا ہوا لیکن نا معلوم کس گناہ کی سزا ملی بیٹی کو طلاق ہو گئی چلو اسے بھی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا لیکن اس کے بعد جو ہوا اس نے مجھے خون کے آنسو رُلا دیا میں اپنی نظروں میں گر گیا ہوں برسوں کی عزت خاک میں مل گئی یہ کہہ کر وہ بلک بلک کے رو پڑے۔
قصہ مختصر معلوم یہ ہوا کہ تیرے میر ے کہنے پر وہ بیٹی کے حق مہر اور جہیز کے حصول کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر بیٹھے بس پھر جو حشر انکا اور انکی بیٹی کا عدالت میں ہوا وہ دکھ انکی جان لے گیا۔جہیز کا سامان تین سال بعد ملا ٹوٹی پھوٹی حالت میں وہ بھی آدھا ادھورا لڑکی کے سسرال والوں نے اس شرط پر واپس کیا حق مہر کا مطالبہ نہیں کرو گے ۔ جب باقی سامان کا پوچھا تو کہا گیا ہم نے طلاق دی اسی لیئے تھی تمھاری لڑکی کا چال چلن درست نہ تھا اس نے سامان یاروں کو بانٹ دیا ہو گا ہم کیا جانیں۔۔وہ ٹیلر ماسٹر صاحب (اللہ انھیں جنت نصیب کرے ) اس پچھتاوے میں جان سے گئے کہ کاش میں عدالت نہ گیا ہوتا چھوڑ دیتا اس سامان کو میری بیٹی پہ الزام تو نہ لگتے۔۔
یہ نہیں کہ یہ صرف اُس وقت کا قصہ ہے آج تک یہ سلسلے اسی طرح جاری ہیں بس جس کا جہاں دائو لگتا ہے وہ دوسرے کا حق مار لیتا ہے لوگ انصاف کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں عمریں بیت جاتی ہیں ، کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صُورت نظر نہیں آتی،ہمارے ملک کا عدالتی نظام اتنا مشکل ہے جو بندے کھا جاتا ہے ۔جب ایک قتل کی سزا موت ہے تو دوسرا قتل کرتے ڈر نہیں لگتا موت تو ایک ہی بار آنی ھے نا۔؟کسی بھی غلطی کی بروقت پکڑ جرم کی راہ روکتی ہے اور انصاف وہی ہوتا ہے جو بلا تخصیص ملے کمزور کو بھی بولنے کی آزادی ہو مسلمہ ابن جوزی” اپنی کتاب ” المنتظم” میں لکھتے ہیںکہ ایک مرتبہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے اپنے دور خلافت میں برسرمنبر یہ اعلان فرمایا ۔” جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر چار سو درہم تھا ” اس لیے کوئی شخص عورتوں کا مہر اس سے زیادہ مقرر نہ کرے کسی نے اگر اس سے زیادہ مہر مقرر کیا تو وہ رقم ضبط کر کے بیت المال میں داخل کر دی جائے گی ۔” یہ فرمان فاروقی سن کرتمام حا ضرین خاموش رہے
مگر ایک عورت کھڑی ہو گئی اور اس نے کہا ۔” اے امیرالمومنین اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں فرمایا ہے ۔اگر عورتوں کو تم نے مہر میں کثیر مال دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔ امیرالمومنین آپ کے لیے یہ کس طرح حلال ہو سکتا ہے کہ چار سو درہم سے زیادہ جو مہر ہو گا ‘ اسے آپ ضبط کر کے بیت المال میں جمع کر دیں؟ امیرالمومنین نے ارشاد فرمایا۔ عورت نے درست جواب دیا اور مرد غلطی کر بیٹھا اسلامی تاریخ کے اس واقعے سے عہد فاروقی میںاظہار رائے کی آزادی اورعدل کی بالا دستی کا پتہ چلتا ہے
حکمرانوں کی زندگیاں عوام کے لیے مثال ہوا کرتی ہیں اگر ان کے کردار و افعال اچھے ہوں تو عوام پر رعب پڑتا ہے عوام بتدریج اس طرز زندگی کو اپناتے ہیں جو ان کے حکمران گذار رہے ہوتے ہیں آج ہمارے ملک میں مثال دی جاتی ہے جب ملک کا صدر ، وزیراعظم کرپشن کر سکتا ہے ،بنک لُوٹ سکتا ہے ،قرضے معاف کرا سکتا ہے عوام کے پیسوں سے عیاشیاں کر سکتا ہے فراڈ کر سکتا ہے جھوٹے دعوے جھوٹے وعدے کر سکتا ہے
تو پھر ہم کیوں نہ کریں۔؟ کس لیے ایسی حکومت کو ٹیکس دیں جس نے پہلے ہی مہنگائی کر کے ہمارا جینا محال کر دیا ہے،شدید فاقے میں تو حرام بھی حلال ہو جاتا ہے ،یہ بھی دین کا سبق ہے یعنی جب آپ اپنے اعمال سے جنگل کے قانون کو جنم دے رہے ہیں تو پھیر جنگل کا قانون یہی ہے ہر طاقتور کمزور کو کھا جائے گا اور ہر کمزور طا قت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا جب اس کو کہیں سے انصاف کی امید نہیں رہے گی تو وہ قانون کو اپنے ہا تھ میں لے لے گا۔
اگر طاقتور کی غلطی کی بروقت پکڑ کی جائے ،عدالتیں انصاف دے رہی ہوں حصول انصاف اس قدر مشکل نہ ہو کہ عمریں بیت جائیں تو میرا خیال ہے جرم کرنا اتنا آسان نہ رہے جب ایک گورنر کو انصاف ہوتا نظر نہیں آتا اور اس کی مایوسی کی انتہا ہے کہ وہ اٹھارہ مہینے کرب میں گذار کر مستعفی ہو جاتا ہے تو پھر عا م لوگ کیا امید رکھ سکتے ہیں
تحریر:مسز جمشید خاکوانی