تحریر : ربیعہ عرفان
عجب قصہ ہے حیاتِ نو کا ، روح اور کلبوت اور، قصہ بیان اور ہے۔ نہ میں سمجھا سکا تجھے اپنے وجود کی داستان، نہ تو جان سکا میری آہ و بکا کا قصہ۔ میرا نام ببلی ملک ہے، میں خواجہ سراء کے حقوق کے لئے کام کرتی ہوں۔ کہنے کو تو میں ایک خواجہ سراء ہوں، مگر مجھے یہ کہلوانا بالکل پسن نہیں۔ میں لوگوں کو اپنے وجود کا کیوں یقین دلائوں۔ میرا وجود میرے رب کی تخلیق ہے، جب اس نے مجھے وثوق کے ساتھ پیدا کیا ہے، مجھے میرا روپ دیا ہے تو میں کیوں لوگوں کے ساتھ بحث کروں ،کہ میں کیا ہوں۔ کبھی سوچتی ہوں کہ رو رو کر گِلہ کر دوں پھر کہتی ہوں چھوڑو، گِلہ کرنے کا بھی کیا فائدہ نہ آ پ مجھے سمجھ سکیں گے اور نہ میرے دل کو سکون مل پائے گا، تو پھر بحث کیسی؟
ببلی ملک کی طر ح اور بہت سے خواجہ سرائوں کی یہ پہلی کہانی ہے، وہ بھی مجبور ہیں، اپنی خوشی سے تو وہ بھی ایسے نہیں بنی، مگر ہمارا معاشرا کبھی ان کو قبول نہیں کرتا، بلکہ ہمیشہ ان کو دھتکار دیتا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ بے شک ان کا وجود جیسا بھی ہے، پر ان کی کو ئی عزت ہے۔ ان کی طرف کسی نے مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا، کیا وہ انسان نہیں؟ وہ بھی اﷲ کی بنائی ہو ئی مخلوق ہے۔ ہمیں ان کی عزت کرنی چاہیے، لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ یہاں ان کو کوئی عزت دینا تو دور کی بات ان کو انسان بھی نہیں سمجھتا۔
کیا وہ یہ حق نہیں رکھتے کہ عزت کی زندگی گزاریں ۔ روٹی ، کپڑا اور مکان ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہمارا معاشرہ اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ وہ انسانیت کا درس دینے والے اپنے مذہب کو بھول چکا ہے اور نئی روش اختیار کئے ہوئے ہے کہ جو اپنے لئے اچھا ہے وہ اچھا ہے ۔ خواجہ سرائوں کو گانے بجانے اور ڈانس کے لئے تو ضرور بلاتے ہیں، مگر ان کو عزت دینا یا اُن کا احترام کرنا بھول جاتے ہیں۔ ہمارے ہاںکتنے خواج سراء ہیں ۔
جو تعلیم یافتہ /یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ؟ جب ان کو سکول ، کالجوں میں داخلہ ہی نہیں دیا جائے گا توو ہ اچھے عہدوں اور ملازمت تک رسائی کیسے حاصل کر پائیں گے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جس طرح ان کے شناختی کارڈز بنانے کی اجازت دی ہے اسی طرح ان کو سکول ، کالج میں داخلے دینے اور ملازمتیں دینے کا بھی آغاز کرے تاکہ وہ بھی معاشرے میں ایک فعال مقام حاصل کر سکیں ۔