counter easy hit

اعزاز کی بات

Honor

Honor

تحریر : نذر عباس جعفری
میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میرے گذشتہ مضمون تو قارئین محترم نے پذایرائی بخشی ہے میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اپنے موضوع کا جائزہ لینے کے لیے رواتاریخ کے اوراق کو الٹتے ہیں۔کہتے ہیں کہ انسان معاشرتی حیوان ہے۔دوسروں کے ساتھ مل کررہنا اس کی جبلی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔اس جبلی ضرورت سے معاشرے جنم لیتے ہیں۔گھر بنتے ہیں شہر بنتے ہیں قومیں پیدا ہو تی ہیں اور ملک معرض وجود میں آتے ہیں پاکستان بھی اسی ایک نظریہ ضرورت کے تحت ایک ملک کی حیثت سے 1947میں اتر کر دنیا کے نقشے پر نمودارہوا۔پاکستان ایک نظریاتی مملکت کے طور پر معرض وجود میں آیا۔اور اسلامی ریاست کے طو ر پر دنیا میں متعارف ہوا۔پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت سے مختلف عوامل نے میرے اس پیارے ملک کو مکڑی کے جال کی طرح اپنے اندر لپیٹا ہوا ہے۔گویا پاکستان ایک جسم ہے اور عوامل جال ہے۔ایک عامل تو ان طاقتوں کا ہے جنہوں نے یہا ں ساڑھے تین سوسال تک حکومت کی۔دوسرا عامل انگریز حکمرانوں کا جنہوں نے یہاں سوسال تک حکومت کی۔

تیسرا عامل ہندوستان کے ہندؤں کا جو اس خطے کا اپنے آپ کو الہام سمجھتے ہیں اور دھرتی ماتا کا نظریہ رکھتے ہیں۔اور ایک اہم عامل نام نہاد مذہبی لوگوں کا دور ایک ترقی پسند لوگوں کا دھڑاہے۔ان حالات میں ہر عامل کا اثرمیرے ملک پاکستان کے وجود پر ایسا تھا جیسے اکاش بیل کا درخت ہوتا ہے ان تمام طاقتوں نے کبھی کبھی پاکستا ن کو پھلنے پھولنے کے مواقع دئیے ہیں۔اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان مذہبی نام نہاد قوتیں بنیاد پرستوں اور بنیاد پرستوں نے پاکستان میں انتہا پسندی کی حد کر دی اور دہشت گردی کے زہر سے ملک کو مردہ کررہا ہے ان حالات میں سیاسی حکمران بساط کے مہرے بن کر ہٹتے رہے اور اپنا پیٹ بھرتے رہے اور ملک کو کھو کھلا ہوتا گیا۔اور یہ لو گ ابتر سے ابتر ہونے لگے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ان ناران وڈیروں کی نا جا ئز اولادوں نے پا کستا ن کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا قائداعظم محمد علی جناح کے بعد سیاسی طور پر ایسا حکمران نظر نہیں آتا جو اس ملک کو سبھالا دے سکا ہو۔ تعلیم کا میدان ہویا سیاست کا میدان ہو۔عدل کا نظام ہو یا ریلوے کا۔تھانے کہیچری کو لیا جا ئے یا واپڈا والوں کو۔ ہر جگہ اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔۔۔۔۔۔اور میں سمجھتا ہوں کہ ووٹ وہ ایلبسی ہے بیج ہے جس نے معاشرے میں رقوم کے زہریلے درخت پید اہوتے ہیں اور ہر سمت اس ووٹ کی آگ دوزخ کا منظرپیدا کرتی ہے ہر جگہ دوزخی لوگ معاشروں کو آگ لگا تے نظر آتے ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک یہی شیطانی دیہ استعمال کرے ملکوں کو یا مال کرتے چلے رہتے ہیں۔ابلیس کی مجلس شوری اس شوارتی نظام نے اسلا م کے اندر پہلی دراڑ پیدا ہو ئی ان حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری پاک فوج کا کردار بڑا مثبت اور جاندار رہا ہے۔

پاکستان کی سالمیت کو خطرے سے بچانے کے لیے پاک فوج کو میدا ن میں آنا پڑا اگر فوج ایسا نہ کرتی تو یہ ناداراور ظا لم سیاستدان ملک کو کبھی کا بیچ چلے ہوتے۔ایو ب خان سے لے کر دل راحیل شریف تک ہم لکھتے ہیں کہ فوج نے صرف اور صرف ملک کو سنبھا لا دینے کا کردار ادا کیا ہے۔ زلزلے ہوں ،طوفان ہوں ،یا سیلا ب ہو ں ،آفات زمینی ہو ں یا آسما نی ، دہشت گردوہو یا موسموں کی گر می خود ہمیشہ دشتہ بن کر آئی ہے۔ اور ملک کے غریب ، تباہ حال ،شہریوں کے سر پر شفقت کا ہا تھ رکھا ،اس وقت ملک دہشتگردی کے جن حالا ت سے گزر رہا ہے ضرب غضب کاسبنھالا نہ ہو تا تو ہماری قوم کا کیا حشر ہو تا۔۔۔۔۔ اصل میں اسلا می معاشروں کا کلچر ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ملک کا سربراہ فو ج کا سپہ سالار ہی ہوتا رہا ہے۔ان ادوارمیں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلا می معاشرے بڑے مستحکم اور مضبوط رہے ہیں۔اور جب سے سربراہ اور سپہ سالا ر کے عہدوں کو الگ الگ کر دیا ہے۔

اسلامی معاشرے غیر مستحکم اور منتشر ہو گئے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ ساری پا ک فوج نے ہمشیہ ملک کے غریب عوام کے رستے ہو ئے زخموں پر مرہم رکھا۔ یہا ں میں اپنے معزز اور قابل احترام دوستوں سے بھی ہاتھ جو ڑ کے گزارش کروں گا کہ یہ ہمارا پیا را ملک ہے ہم نے اسی میں ہی رہنا ہے۔ ہمیں کوئی پتھر بھی مارے تو ہمارے مخالفین وطن اپنا سینہ آگے کرانے ہیں۔ ہمیں اپنی فوج کے ہا تھ مضبوط کر نے چا ہیں دشمن تو خوش ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہی لوگو ں پر تنقید کریں۔ہماری قلم قوم کی امانت ہے۔ہمیں اپنی امانت کا استعمال سوچ سمجھ کہ کرنا چاہیے۔

اپنے ملک اپنے ملک پاک فوج کے خلا ف اٹھنے والی یہ آواز کو کچل دیں۔اپنے ملک اپنی قوم اپنی فوج کا ساتھ د یں نہ ان کی حوصلہ شکنی کریں۔اسی سے ہم کمزور ہو ں گے۔دشمن تو چاہتا یہ یہی ہے کہ ہم بکھریں تا کہ وہ ہم پہ شب خون مارے۔ہمارا قلم ہماری صلا حتیں سب کچھ اپنے ملک وقوم کے لیے ہیں۔اپنی پاک فوج کے لیے ہیں تا کہ ہمارا دشمن بجائے ہمیں کمزور کرنے کے خود کمزور ہو اور ہماری پاک فوج کوفتح نصیب ہو پاکستان زندہ باد۔

Nazar Abbas

Nazar Abbas

تحریر : نذر عباس جعفری