جب روٹی مزدور کی تنخواہ سے مہنگی ہو جائے، وہاں دو چیزیں سستی ہو جاتی ہیں، عورت کی عزت اور مرد کی غیرت: صلاح الدیں ایوبی
رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی کے عورت مخالف بیانات کے بعد مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو اپنے وزراء کے بیانات پر معافی مانگنی پڑی۔
اس بات سے قطعی طور پر کسی باشعور انسان کو انکار نہیں ہونا چاہئیے کہ ہر عورت کی عزت کرنا لازم ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی پیشہ سے ہو۔
پاکستان میں عورت کو عزت نہ دینے کا مسئلہ کوئی نیا نہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی مسئلہ ہے بلکہ یہ ایک قومی سطح کا مسئلہ ہے جس میں کئی تعلیم یافتہ اور ان پڑھ افراد بھی شامل ہیں۔ اس اہم مسئلے کو رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی کے حالیہ خواتین مخالف بیانات کی حد تک محدود کر دینے سے کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی البتہ الیکشن سے پہلے عورت کو عزت دینے کے نام پر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کی جانب سے رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی کو معافی مانگنے کا اس طرح کہا جارہا ہے جیسے ان کے معافی مانگنے کے بعد تمام پاکستانی مرد اپنے خاندان کے باہر کی تمام عورتوں کی بھرپور عزت دیا کریں گے۔ مگر افسوس یہ ممکن نہیں۔ اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے زمینی حقائق کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ مسئلہ ہمارے معاشرے کی جڑوں میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔
ہمارے معاشرے کے پیدا کردہ ایسے افراد تمام سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں جنہیں سخت قسم کے بیانات دینے کے لیے ہمیشہ تیار رکھا جاتا ہے۔ اور ایسے افراد ایک دوسرے کی جماعت کے خلاف تنقیدی بیانات دیتے ہوئے کسی بھی قسم کی حد مقرر نہیں کرتے۔ جو منہ میں آتا ہے بول دیتے ہیں اور جو دل میں آتا ہے لکھ دیتے ہیں۔
اگر اس بات کو سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس بیماری کا شکار وہ عام عوام بھی ہے جو تحریک انصاف کے جلسوں میں شریک ہو کر عورتوں کو بری طرح سے ہراساں کرتی ہے۔ ہزاروں عوام کے مجمع میں رہتے ہوئے عورت کو دھکے دے کر اس کی بری طرح تذلیل کی جاتی ہے اور ساتھ میں اپنی ہوس بھی بھجائی جاتی ہے۔ افسوس یہ ایک بار نہیں بلکہ ایسا کئی مرتبہ تحریک انصاف کے جلسوں میں ہو چکا ہے۔
یہ سیاسی مسئلہ نہیں کیونکہ اس بیماری کا شکار وہ عام آدمی بھی ہے جس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں مگر وہ اپنی زندگی میں کئی مرتبہ عورت کی تذلیل کر چکا ہے۔ کیونکہ آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو جینز میں ملبوس لڑکی کے بارے میں الگ رائے رکھتے ہیں اور شلوار قمیض والی خاتون کے لیے الگ رائے۔