“ملکی ترقی میں جوانوں کا کردار”, محترم قارئین یہ وہ عنوان ہے جس پر لکھنے والوں نے خوب طبع آزمائی کی، بولنے والوں نے لفظوں کے تیر چلائے اور پڑھنے والوں نے پڑھا، سننے والوں نے سنا اور یہ گئے وہ گئے۔ نہ ملک نے ترقی کی اور نہ ہی جوانوں کو کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب تک اس موضوع پر ہونے والی تمام تر پیش رفت قبل از وقت تھی کیوں کہ پاکستان کے حوالے سے جو اعداد و شمار اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشن ڈیویلپمنٹ پروگرام کی حالیہ رپورٹ میں سامنے آئے ہیں ان کے مطابق تو فل وقت “جوانوں کی ترقی میں ریاستی کردار” پر بحث کرنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ادارے کی پاکستان کے حوالے سے جاری ہونے والی پاکستان نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ (قومی انسانی ترقی کی رپورٹ) میں ایک ہندسہ سامنے آیا کہ ملک میں جوانوں کی آبادی کل آبادی کا 64 فیصد ہے، مطلب کہ اگر پاکستان کی آبادی کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جائے تو 2 حصے ان لوگوں پر مشتمل ہیں جن کی عمر 15 سال سے 30 سال کے درمیان ہیں۔
پڑھنے اور سننے میں یہ ہندسہ بہت مثبت اور حوصلہ افزا ہے۔ 64 فیصد کا تاریخی ہندسہ کتنا اہم ہے اس پر مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بہت سو نے پچھلے چند دن میں بتایا اور فخر کیا ہے کہ ہمارے پاس 64 فیصد جوان ہیں۔ کسی بھی ملک کی طاقت ہوتے ہیں یہ جوان، مستقبل ہیں یہ جوان، قوم کے معمار ہیں یہ اور پھر وہی قبل از وقت باتیں کہ جب پتا چل گیا کہ جوان بہت ہیں تو کیوں نا ملکی ترقی میں ان کے کردار پر سیمینار کروائے جائیں تو محترم یہ وہ واحد ہندسہ ہے جو آپ تک پہنچا ہے۔ آئیں ذرا یو این ڈی پی کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کے دیگر اعداد وشمار پر بھی نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ 64 فیصد ملک کا مستقبل ہیں یا ایک جذباتی ہجوم جسے کبھی سیاسی اور کبھی مذہبی بابے ہانکتے پھرتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت یعنی 2018ء میں جوان افراد کی شرح تاریخ کی سب سے بلند سطح پر ہے جو خوش آئند ہے، لیکن واضح رہے کہ ملک کی آبادی میں جوان افراد کی زیادہ شرح ملک کو چار چاند بھی لگا سکتی ہے اور یہی جوان آبادی ملک کی تباہی اور بربادی کی وجہ بھی بنتی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اس 64 فیصد پر کتنا سرمایا لگا رہے ہیں جس سے ان کو اعلیٰ تعلیم ملے، بہتر روزگار ملے اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں۔
پاکستان کے حوالے سے قومی انسانی ترقی کی رپورٹ میں جاری ہونے والے اعداد و شمار کو میں ذرا آسان الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس 64 فیصد کے طبقہ کو ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے کتنا تیار کیا گیا ہے اور ہمارے پالیسی ساز اس زبردست شرح کو کس سمت میں لے کر جا رہے ہیں۔
اگر رپورٹ کو تسلی سے پڑھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ملک کے 64 فیصد جوانوں میں 50 فیصد خواتین ہیں جب کہ 50 فیصد ہی مرد ہیں۔ مرد و خواتین کی آبادی میں یہ برابری بھی ایک مثبت ہندسہ ہے، لیکن مرد و خواتین میں امتیازی سلوک کے باعث ملک کے 50 فیصد جوان خواتین میں سے صرف چند فیصد ہی ملکی ترقی میں کردار ادا کر پاتی ہیں۔
مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 70 فیصد جوان پڑھے لکھے ہیں لیکن یہ جان کر میری خوشی ہوا ہوائی ہو گئی کہ یہ پڑھا لکھا طبقہ کتنا پڑھا لکھا ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 70 فیصد پڑھے لکھے جوانوں میں سے 16 فیصد صرف پرائمری پاس ہیں یا اس سے کم پڑھے لکھے ہیں، 40 فیصد ایسے ہیں جنہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، 9 فیصد وہ ہیں جنہوں نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اور صرف 6 فیصد جوان ایسے ہیں جنہوں نے انٹرمیڈیٹ سے زیادہ تعلیم حاصل کی ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ ملک کے 70 فیصد پڑھے لکھے جوانوں میں پڑھے لکھوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اگر میں کہوں کہ اس تعلیمی پسماندگی کی وجہ بھی یہی جوان ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا کیوں کہ جن لوگوں نے ریاست کی پالیسیاں بنانی ہوتی ہیں وہ انہیں کے ووٹ سے منتخب ہوکر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان پر سرمایا لگانے کی کوشش کریں۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں ان 64 فیصد جوانوں میں سے 80 فیصد نے حق رائے دہی استعمال کیا لیکن جن کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا انہوں نے انہیں کیا دیا؟ مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں رپورٹ میں لکھے اعداد وشمار ان کی کارکرگی کو با احسن بیان کر رہے ہیں۔
ملک کے صرف 39 فیصد جوان صاحب روزگار ہیں اور باقی غم روزگار کا شکار ہیں۔ میں نے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا ذکر کیا تھا تو میں نہیں چاہتا کہ آپ اس اختلاف کریں اس لیے بتاتا چلو کے 39 فیصد باروزگار جوانوں میں خواتین کی تعداد صرف 7 فیصد ہے۔
ملک میں صرف 6 فیصد جوانوں کو لائبریریوں تک رسائی حاصل ہے جبکہ 94 فیصد اس سہولت سے محروم ہیں۔ 7 فیصد کو کھیلوں کی سہولیات میسر ہیں جبکہ 93 فیصد سڑک پر وکٹ لگا کر ملکی ترقی کی راہ میں یارکر اور باؤنسر مارتے ہیں۔
جدید دور میں جو معاشرہ ٹیکنالوجی کے جتنا قریب ہوتا ہے اس کا علم اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی جہاں تک ممکن ہے تعلیم و تربیت کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس دور میں بھی جوانوں کی ٹیکنالوجی تک رسائی کے اعداد وشمار پریشان کن ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ نے جوان نسل کو تباہ کردیا تو براہ کرم درستگی فرما لیجیے، عالمی ادارے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف 15 فیصد جوانوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ مطلب کہ 85 فیصد جوانوں کی تباہی کی وجوہات اور ہیں۔ 52 فیصد کے پاس موبائل ہیں اور باقی کے 48 فیصد اس سہولت سے بھی محروم ہیں۔
خیر اعداد و شمار اور جوانوں کی ترقی میں ریاستی کردار جتنا بھی کم ہو اس نا خواندگی، بے روزگاری اور امتیازی سلوک کے باوجود کچھ اعداد وشمار حیران کن ہیں اور امید ہیں کہ اگر جوانوں کی ترقی میں ریاست کو اپنا کردار ادا کرنے کی فکر لاحق ہو جائے تو نتائج مثبت آئیں گے کیونکہ ملک کے 48 فیصد جوان اپنی کشت ویراں سے نا امید نہیں انہیں یقین ہے کہ مٹی نم ہوگئی تو زرخیزی آجائے گی۔ رپورٹ کے مطابق 36 فیصد جوان ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوس ہیں۔ یہاں میں صاحب مسند سے یہی کہوں گا کہ اس 36 فیصد کی مایوسی کو امید میں بدلنے کے لیے آگے بڑھیں اور ریاست کی وسائل انسانی ترقی پر صرف کریں۔
خیر میں ان 36 فیصد کے نام اقبالؒ کا یہ شعر کرتا ہوں کہ:
نہ ہونومید، نومیدی زوال علم وعرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کر رازدانوں میں
اس فہرست میں 16 فیصد ایسے جوان بھی شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ کچھ نہیں بدلے گا، سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔
ان تمام تر اعداد وشمار کی روشنی میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ نیلے، پیلے اور لال منصوبوں کے بجائے ایک روشن منصوبہ شروع کریں جس میں ریاست کا سرمایا جوانوں پر لگا کر تخلیق کار اور ہنر مند افراد تیار کیے جائیں جو ملک کی ترقی میں کردار ادا کریں اور اپنی تخیلق اور ہنر سے ملک کی معیشت کو مضبوط بنائیں۔ اس سے پہلے کہ یہ 64 فیصد کا ہجوم ملک کو تباہی کی طرف لے کر جائے، ان پر ریاستی سرمایہ خرچ کر کے ان کو قوم کا معمار بنایا جائے تاکہ روشن کل آئے اور ہم دو تہائی اکثریت کو اپنے حق میں استعمال کر سکیں۔