ایک وقت تھا جب لڑکیاں اِتنی کم عِلم ہوا کرتی تھیں کہ بیاہتے ہوئے سِیانی عورتيں یہ مشورہ دیا کرتی تھیں کہ مَرد کے دِل میں جانے کا راستہ اس کے معدے سے ہوتا ہوا گذرتا ہے۔ اب نیا دور ہے تو یہ لڑکیاں ہمیشہ مَرد کو نیچا دیکھا کر اپنے آپ کو عالمی حَسینہ تصور کرتی ہیں۔ لیکن حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ ان کی دانش کا مغالطہ ہے۔
آپ میں سے کچھ لوگ میری اِس بات کو مبالغہ آمیز تصور کرتے ہوئے مطمعن تو ہوجائیں گے، حقیقت تو یہ ہے کہ فیمینیزم کے اِس دور میں یہ بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا ہے۔ اگر لڑکیوں کی تعریف کریں گے تو یہ غرور میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ غلطی سے طیش کی حالت میں زیادہ تعریف کر لیں تو یہ جِنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام سیدھے سادے اِنسان پر لگا دیتی ہیں۔ حُسن کے نَشے میں جب غرور کا پارہ بڑھ جاتا ہے تو یہ دوسروں کی پرواہ نہیں کرتیں۔
ایک صاحبہ نے مجھے فیس بُک پر رِیکوسٹ سینڈ کی۔ میں نے اِن کی رِیکوسٹ قبول کر لی۔ ایک مرتبہ انھوں نے مجھ سے میرے مَسلک کی معلومات حاصل کرنے کی غَرض سے سوالات کیے، تو میں نے بھی بڑے مہذب انداز میں ان تمام سوالات کا جواب دے دیا۔ محترمہ کی کم علمی کا یہ عالم تھا کہ ان کو الف کے بعد ب کا علم نہیں تھا۔ اسی واقعے کے بعد میں نے ان کے زکوٰة مانگنے والے اشتہار پر ہنسنے والا ایک اِموٹِیکُون ارسال کردیا تو وہ آگ بگولہ ہوگئیں۔ کہتی ہیں کہ ” کیوں ہنس رہے ہو” میں نے کہا کہ “ان چھوٹے موٹے فلاحی اِداروں کو دینے سے اچھا ہے انسان اپنے عَطیات خود غرباء اور مَساکین کو اپنے ہاتھوں سے دے”۔ بس میں تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگیا اور انھوں نے مجھے بلاک کر دیا۔ اس بات کا ذکر یہاں کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ان کی مغروریت اور کم عِلمی نے ان کے چھپے ہوۓ روپ کو واضع کر دیا۔
دنیا کی تاریخ میں یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ خواتین کی نفسیات کو سمجھنا نا ممکن ہے۔ کہتے ہیں دنیا کا کوئی کام نا ممکن نہیں ہے بشرطیکہ کام خواتین کی نفسیات کو سمجھنے کا نہ ہو۔ ہزار سال سے حضرت آدم علیہ سلام کے سیانے فرزندوں نے بھی اس گُتھی کو سُلجھانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا لیکن ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھا پڑتا ہے۔ یہ ایک طرح سے حیرتوں کا سَمندر ہے کہ جس میں کُل دنیا بھر کے مَرد ہمیشہ الٹے سیدھے غوطے لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن اِس تحقیق کے دوران ہاتھ آئی خاتون سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
بعض پاکستانی لڑکوں میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ لڑکیوں کے سامنے ڈھنگ سے بات کرسکیں۔ انہیں یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اتنی مشکل سے ہاتھ آئی لڑکی اگر ناراض ہو گئی تو نئی کہاں ڈھونڈتا پھروں گا۔ لیکن وقت بدل رہا ہے، اب لڑکوں نے بھی پر پُرزے نکالنے شروع کر دئیے ہیں، لڑکوں نے ٹھان لیا ہے کہ جو بھی ہو وہ لڑکیوں کے ہاتھوں مَزید رُسوا نہیں ہوں گے۔ ”کزن ”اور ”ہم محض اچھے دوست ہیں” والی باتیں اب برداشت نہیں کی جائیں گی۔ لیکن لڑکوں کے لئے یہ کام آسان نہیں ہوگا، اس کے لئے انہیں اپنی عزت بحال کروانی ہوگی اور یہ اسی صورت ممکن ہے اگر وہ سوشل میڈیا پر ایک مُہم چلائیں جس کا ہیش ٹیگ ہو ”لڑکوں کی عزت کرو۔ ”