تحریر: شاہد شکیل
ماضی واپس آئے گا نہیں حال کو پَر لگے ہیں اور مستقبل ایک سپنا ہے باوجود اسکے عام طور پر ہر انسان تنہائی میں حال اور مستقبل سے زیادہ ماضی کے دریچوں میں کچھ زیادہ ہی تانک جھانک کرتا ہے کیونکہ ماضی انسان کیلئے سبق اور تجربات کا خزانہ ہوتا ہے مثلاً اگر آج سے پچاس ساٹھ برس قبل جو کہ ایک طویل عرصہ اور سفر ہے اس میں جھانکا جائے تو دل و دماغ یقین نہیں کرتا کہ ہم نے ایسا بھی ماضی دیکھا ہے جو نہایت پرسکون تھا کیونکہ ماضی میں آج کی طرح کسی شے کو پانے کی ریس نہیں لگی ہوتی تھی چھوٹے سے لے کر بڑے گھرانے میں بھی ہر فرد پیار و محبت اور عزت و احترام سے زندگی بسر کرتا تھا جبکہ آج کل سب کچھ دکھاوہ اور نمائش ہے ،نہ جانے آنے والے برسوں میں دنیا کس سمت رواں ہوگی اور نہ جانے کل کتنا بھیانک ثابت ہو سکتا ہے
کیونکہ جب آج کی زندگی ہی رسک سے بھرپور ہے تو آنے والے کل سے کسی خوشخبری کی امید رکھنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔میرا موضوع وقت کے اعداد وشمار اکٹھا کرنا نہیں بلکہ وقت کے دھارے بہتے ہوئے انسانوں کے رویئے ،گفتگو،خیالات اور اخلاقیات پر مبنی ہے کہ ایسی کون سی قیامت یا آفت آن پڑی ہے کہ انسان اتنا کٹھور اور بے حس ہو گیا ہے اور اسی بے حسی میں نہ کسی کی عزت کرتا ہے اور نہ جانتا ہے کہ عزت کیسے کی یا کروائی جاتی ہے،عزت و احترام چونکہ اخلاقیات سے منسلک ہے اس لئے جس انسان کا اخلاق بلند ہے وہ اعلیٰ ظرف ہے اور عزت و احترام کے بارے میں بخوبی علم رکھتا ہے کیونکہ عزت و احترام انسانوں کی فلاح کا زریعہ ہے اور نہ صرف روز مرہ زندگی میں بلکہ ہر قسم کے دنیاوی عوامل میں عزت و احترام کا بلند اور اعلیٰ مقام بھی ہے۔وقت کی رفتار اور آج کے انسانوں کا یہ حال ہے کہ بسوں ٹرینوں میں دوران سفر کسی ضعیف العمر کو کوئی اپنی سیٹ کی پیشکش نہیں کرتا ، کسی شاپنگ سینٹر میں آتے جاتے دروازے کو کھولتے یا بند کرتے یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے کہ عقب میں کوئی بزرگ یا حاملہ خاتون ہوگی اور دروازہ انہیں لگ سکتا ہے۔
عین بیچ فٹ پاتھ پر دو افراد کھڑے ہو کر اپنی باتوں میں مشغول ہیں اور کوئی غرض نہیں کہ دیگر پیدل چلنے والے سڑک کراس کرتے کسی تیزرفتار گاڑی کے نیچے آجائیںیا ان بے وقوفوں کو باور کرایا جائے کہ بھائی ذرا سائڈ پر ہو جائیں سارا فٹ پاتھ بلاک کر رکھا ہے ،بچوں اور خواتین کے ساتھ نہایت بد تمیزی ،بد اخلاقی اور بد تہذیبی سے پیش آنا کہ ان کی روح تک مجروح ہو جاتی ہے، سب سے بڑھ کر اگر ایک انسان کسی دوسرے سے اخلاق ،عزت و احترام سے پیش آتا ہے تو نہ جانے کچھ لوگ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ کمزور اور بزدل ہے اسی لئے عزت کرتا ہے اور دیکھا دیکھی سر پر سوار ہو جاتے ہیں کیوں؟آخر یہ سب کیا ہے کہاں گئی عزت؟کہاں دفن ہو گیا احترام؟۔عزت و احترام کے کئی معنی ہیں مثلاً ایک عمر رسیدہ انسان نوجوانوں سے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ خوش اخلاقی ،عزت اور احترام سے پیش آئیں ،مالک ملازم سے اور ملازم مالک سے اخلاق کے دائرے میں بات چیت کریں
بچے اور خواتین چاہتے ہیں کہ انہیں کمتر نہ سمجھا جائے اور عزت ،پیار محبت اور اخلاق سے بات کی جائے تاکہ ان کی شخصیت متاثر نہ ہودوکاندار گاہک سے اور گاہک دوکاندار سے بھی کچھ ایسی امیدیں لگائے رکھتے ہیں۔ ریسپیکٹ ریسرچ گروپ کے ڈاکٹر ٹِل مین کا کہنا ہے ریسپیکٹ پر کئی سکولوں،مختلف فرمزاور عام لوگوں پر تحقیق کی گئی کہ عزت و احترام کی آج کے دور میں کتنی اہمیت ہے؟کیا واقعی ریسپیکٹ دنیا میں موجود ہے یا محض کتابوں یا الفاظ کی صورت میں بتدریج اختتام ہو رہا ہے؟
طویل مطالعے کے بعد ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اسکی عزت کی جائے لیکن کچھ لوگ ایک ٹکٹ میں دو مزے کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ ہماری عزت بھی کی جائے اور تعریفوں کے پل بھی باندھے جائیں جو کہ ناممکن ہے اور ایسے افراد نہ عزت کے قابل ہوتے ہیں اور نہ تعریف کے کیونکہ عزت اور تعریف دو مختلف الفاظ اور ان کے معنی ہیں ،تعریف میٹریل کی جاتی ہے اور عزت انسان کی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر انسان کی اسکی حیثیت کے مطابق عزت کی جاتی ہے مثلاً لائف پارٹنر کی عزت کرنا،کولیگ ،یا رشتہ دار کی عزت کرنے اور ہمسایہ میں فرق ہوتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ کسی کو کہتے نہیں بلکہ محسوس کرواتے ہیں کہ آپ سنجیدگی سے ان کا خیال رکھتے ہیں تو یہ بھی عزت و احترام میں شمار ہوتا ہے یہ ضروری نہیں کہ گلا پھاڑ اور چیخ کر کہا جائے کہ میں آپ کی عزت کرتا ہوں وغیرہ۔ماہر تھیراپسٹ کا کہنا ہے عزت و احترام کی کمی روح پر حملہ ہے
کیونکہ عزت نہ کرنے سے تعلقات میں دراڑ پڑتی ہے اور ممکنہ طور پر خوش نہ رہنے کی صورت میں انسان سنگین حالات میں بیمار بھی ہو سکتا ہے۔عزت و احترام کا بہت بلند رتبہ اور مقام ہے اور زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے،مثلاً کسی کے سوال کا جواب نہ دینایا ہاتھ کے اشارے سے نظر انداز کرنا یا کسی قسم کا ری ایکشن نہ ہونایہ سب اخلاقی سالمیت پر حملے کے مترادف ہے،سب انسان یہی چاہتے ہیں کہ دوران گفتگو انہیں دیکھا اور سنا جائے نہ کہ نظر انداز کیا جائے بدیگر صورت معاملات انتہائی کشیدگی اختیار کر سکتے ہیں۔انسانی نفسیات پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے ماضی اور دور جدید میں طویل فاصلہ ہے آج کے دور میں انسان مصروفیت کی بنا پر ہر شے کو نظر انداز کرتا ہے مثلاً سمارٹ فونز وغیرہ کے استعمال نے ہر انسان کو لاتعلق،غیر ذمہ دار اور لاپرواہ بنا دیا ہے کئی افراد ان مشینوں میں مگن ہونے کی وجہ سے اپنی جان تک گنوا چکے ہیں۔ایک انسان نہیں جانتا کہ وہ کب تک جئے گا لیکن اگر دوسرے انسان کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آئے گا تو دوطرفہ خوشی بانٹے گا عزت کرنے سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔
تحریر: شاہد شکیل