تحریر : طارق حسین بٹ
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں رہ جانے والے سارے مسلما نوں کو ہندو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ جب کبھی بھی بھارت میں مسلم قومیت کا احیاء ہو گا اس کے لئے شدید مسائل کھڑے ہو جائیں گئے اس لئے حکومتِ وقت مسلم نوجوانوں پر دھشت گردی کے الزامات لگا کر انھیں پابندِ سلاسل کر رہی ہے ۔بھارت میں جہان کہیں بھی دھشت گردی کا واقعہ رونما ہو جاتا ہے اس میں مسلمانوں کو دھر لیا جاتا ہے حالانکہ دھشت گردی کی کاروائیاں تو سب سے پہلے گجرات کے وزیرِ اعلی نریندر مودی نے شروع کی تھیں۔
ایک وقت تھا جب بال ٹھاکرے مسلمانوں کو چین سکون سے رہنے نہیں دیتا تھا اور ان کے خلاف ایک مہم جاری رکھتا تھا۔وہ تو پاکستانی کرکٹ ٹیم کے وجود کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتاتھا۔اس کی ہٹ دھرمی سے کئی دفعہ میچز کی گرائو نڈز بدلی گئیں لیکن اس کی منافرقت کی آگ پھر بھی ٹھنڈی نہ ہوئی ۔بھارت کے وزیرِ داخلہ نے تو کئی بار کھل کر کہہ دیا ہے کہ بھارتی مسلمان یا تو غلام بن کر رہنا قبول کرلیں یا پھر اپنے اصلی وطن پاکستان چلے جائیں لیکن اس کے باوجود بھی بھارتی مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دئے کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ بی جے پی کو ووٹ نہ دینے سے ان کی سلامتی اور جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
خوف کا یہ عنصر مسلمانوں کو متحد نہیں ہونے دے رہا۔وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور کسی بھی مرکزی قیادت سے محروم ہیں۔وہ جب بھی متحد ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر تفرقہ بازی کا الزام لگا کر انھیں ملعون کیا جاتا ہے حالانکہ بی جے پی نے ٢٠١٤ کے انتخابات ہی مذہبی نعرے پر جیتے تھے یہ کیسی اندھیر نگری ہے کہ آپنے لئے تو مذہبی سیاست جائز ہے لیکن دوسروں کیلئے یہ شجرِ ممنوعہ ہے۔مسلمانوں کا مذہب کا نام لینا بھارت کی اساس کو ملیا میٹ کرنے کے مترا دف قرار پا تا ہے جبکہ بی جے پی کو اس کی کھل چھٹی ہے۔مسلمانوں کے لئے اب ایک ہی راستہ باقی بچا ہے کہ وہ یا تو ہندو ازم کے سامنے خود کو سرنگوں کر دیں یا متحد ہو کر اپنے آئینی حقوق کی جنگ لڑیں۔،۔
وہ بھارتی مسلمان جو خود کو سیکو لرزم کے علمبردار سمجھتے تھے انھوں نے بھی ہندو ترا کا مکروہ چہرہ دیکھ لیا ہے۔ایسی غلطی تو قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بھی کی تھی جب انھوں نے متحدہ ہندوستان کے نعرے میں مہاتما گاندھی اور پنڈت جو ہر لا ل نہرو کا ساتھ دیا تھا۔١٩٣٧ کے انتخابات میں کانگریس کی فتح نے سب کچھ طشت از بام کر دیا تھا اور وہ لوگ جو ہندوئوں کے ساتھ باہم مل کر رہنا چاہتے تھے انھیں اپنی سوچ کو بدلنا پڑاتھا۔یہ ٹھیک ہے کہ سیاست میں ایک نظریہ قائم کیا جاتا ہے اور پھر عوام کو اس کا ہمنوا بنایا جاتا ہے لیکن اگر نظریہ کو باطل سوچ پر قائم کیا جائے تو پھر فتح کبھی مقدر نہیں بن سکتی۔متحدہ ہندوستان کا نظریہ ایک باطل نظریہ تھا جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اور شائد یہی وجہ ہے کہ یہ نظریہ بر گ و بار لانے سے قاصر تھا۔جس نظریے کی بنیادیں عصبیت پر ایستادہ ہوں گی وہ تشدد اورفتنہ گری کو ہوا دے گا۔
پاکستان میں ایم کیو ایم نے بھی یہی کیا کہ اپنی سیاست کی بنیاد لسانیت پر رکھ لی جس سے کراچی جیسا روشنیوں کا شہر خاک و خون میں نہا گیا۔نفرتوں نے اس شہر کو لہو لہان کر دیا اور انسانی زندگی اتنی ارزاں ہو گئی کہ جو بیان سے باہر ہے۔کسی کو یہ خبر نہیں ہوتی تھی کہ وہ گھر سے نکلنے کے بعد صحیح سلامت گھر بھی واپس لوٹے گا یہ کہ نہیں کیونکہ ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور ان کے قتل کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہو تے تھے ۔ ایم کیو ایم کی سیاست کی بنیادیں دوسروں سے نفرت پر استوار تھیں جس کی وجہ سے مختلف زبانوں اور نسلوں کے لوگ آپس میں الجھ پڑے اور کراچی اپنے ہی بیٹوں کے لاشے اٹھا نے میں جٹ گیا۔
اس بات کی تمیز اٹھ گئی کہ مرنے والا کون ہے سوائے اس ایک امتیاز کے کہ وہ ایم کیو ایم کا ممبر نہیں ہے۔یہ تو فوج اور رینجرز کا کمال ہے کہ اس نے کراچی کو یرغمالیوں سے نجات دلانے کا عزم کر رکھا ہے وگرنہ کراچی کا ہر گھر مقتل گاہ بن جانا تھا۔کراچی میں جو چیز لسانیت کے نام پر ہو رہی ہے بھارت میں وہی چیز مذہب کے نام پر ہو رہی ہے اور ہندو ازم کے پجاریوں کے علاوہ ہر کوئی واجب القتل ہے۔اس فاشزم کا سب سے زیادہ نشانہ مسلمان ہیں کیونکہ وہی ہندو وترا کی کشتی کو الٹ سکتے ہیں۔ کشتی الٹ دینے کا یہی خوف ہندوئوں کا بے چین کئے ہوئے ہے اور وہ مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کے لئے نئے نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔،۔
حیران کن بات یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں میں مسلمانوں کو لگا تار سولیوں پر لٹکایا جا رہا ہے ۔اجمل قصاب،افضل گرو اور یقوب میمن کی پھانسیاں ایک نئی کہانی بیان کر رہی ہیے ۔یعقوب میمن کی پھانسی میں حکومت نے جس طرح عجلت کا مظہارہ کیا ہے وہ اس کی بد طینتنی کو ظاہر کر رہی ہے۔کیا بھارت میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی پھانیوں پر لٹکایا گیا ہے یا یہ کھیل صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی کھیلا جا رہا ہے؟ ۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد مسلمانوں کو جس طرح چن چن کر انتقام کا نشانہ بنایا گیا وہ ایک دوسری کہانی بیا ن کر رہا ہے۔مسلمانوں ابھی اس وار سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ بمبئی حملوں کا سہارا لے کر مسلمانوں پر پھر دوبارہ یلغار کر دی گئی۔پہلی یلغار جو بابری مسجد کے انہدام سے شروع ہو ئی تھی وہ سات دسمبر ١٩٩٢ سے ٢٧ دسمبر ١٩٩٢ تک چلی تھی جبکہ دوسرا مرحلہ ٧ جنوری ١٩٩٣ سے ٢٥ جنوری ١٩٩٣ تک چلا تھا جس میں مسلمانوں کو بے دریغ تہہِ تیغ کرنے میں کوئی کسر روا نہ رکھی گئی تھی۔آزادی کے بعد ان فسا دات کو بھارت کے سب سے بڑے فسا دات کا نام دیا گیا جس میں نشانہ صرف مسلمان تھے۔بمبئی فسادات میں شیو سینا کے کارکنوں نے خوب جم کر مسلمانوں کی عزت و آبرو اور جان و مال سے کھلواڑ کیا تھا ،بمبئی ایک ایسا شہر بن گیا تھا جس کے ہسپتالوں میں مسلمانوں کے علاج سے منع کر دیا گیا تھا لیکن پھر بھی کچھ مسلمان زعماء کو یہ خوش فہمی ہے کہ بھارت کثیر الجہتی ملک ہے جس میں ہر مذہب کے لوگوں کو مکمل آزادی ہے ۔ایک طرف تو مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا بھیانک رویہ روا رکھا گیا ہوا ہے جبکہ را جیو گاندھی اور پنجاب کے وزیرِ اعلی بیت سنگھ کے قاتلوں کو ابھی تک پھانسی نہیں دی گئی حالانکہ انھیں پہلے پھانسی دی جانی ضروری تھی کیونکہ وہ تو بھارتی وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلی کے قلم میں ملوث تھے اور جس کا اعتراف انھوں نے کھلے بندوں کیا تھا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارتی سیاست کے اس تضاد اور عصبیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ دنیا بھارت کا اصلی چہرہ دیکھ سکے۔وقت خود بخود نئے راستوں کی نشاندہی کرتا جا تا ہے۔جب ظلم و جبر اپنی حدوں سے تجاوز کرنے لگ جاتا ہے تو پھر کچھ باجرات افراد میدان میں نکلتے ہیں اور ظلم وجبر کا شکار ہونے والوں کو اس کے محر کات سے آگاہ کرتے ہیں۔١٩٣٧ کے انتخابات کے بعد بھی تو یہی ہوا تھا کہ متحدہ ہندوستان کے سب سے بڑے وکیل کو متحدہ ہندوستان کے اپنے نظریات سے توبہ کرنی پڑی تھی۔وہ شخص جو بڑے دھڑلے سے کہا کرتا تھا کہ سیاست میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہونا چائیے اسی شخص نے دو قومی نظریے کی شمع اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھا م کر برِ صغیر کی قسمت بدل ڈالی تھی۔ بھارتی سیاست میں مولانا ابو الکلام آزاد کے بعد کوئی بڑا نام نہیں آیا جو بھارتی مسلمانوں کے مفادات کے لئے آواز بلند کرتا۔لیکن حال ہی میں اویسی برادران ایک نئی پہچان سے منظرِ عام پر آئے ہیں اور مسلمان ان کی ذا ت میں اپنے اعتماد کر اظہار کر رہے ہیں لیکن وہ ہنوز ابھی تک اپنے پیغام میں واضح نہیں ہیں۔
وہ بھی پرانی شراب نئی بوتل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بحرِ سیاست میں ہلچل تو مچا رہی ہے لیکن مسلمانوں کو کوئی واضح نصب العین نہیں دے رہی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سعود العویسی اور ان کے بھائی اکبر العویسی با ہمت انسان ہیں اور مسلمانوں کا درد اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں۔ اور بی جے پی کی قوت سے خوفزدہ بھی نہیں ہیں ۔وہ کانگریس سے بھی متاثر نہیں ہیں لیکن انھیں پھر بھی کسی واضح موقف کے ساتھ سامنے آنا ہو گا تبھی وہ منزلِ مراد کو پا سکیں گئے۔ایک زمانہ تھا کہ محمد علی جناح ہندو لیڈر شپ کی نیندیں حرام کئے تھے ل اور اب العویسی برادران ہندواترا کا خواب دیکھنے والوں کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ ان کی جماعت اتحادِ واحدت المسلمین جس طرح لوک سبھا میں اپنی پہچان بنائے ہوئے ہے وہ مسلمانوں کے لئے امید کی کرن سے کم نہیں ہے۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ چیرمین پیپلز ادبی فورم