تحریر : نادیہ خالد چوہدری
علم انسان کو جہاں اس کے خالق سے آگاہ کرتا ہے , اسے اس کی زندگی کے مقصد سے واقفیت دلاتا ہے وہیں انسان کو مہذب شہری بناتا ہے۔ اور مہذب قومیں ہی اپنے ملک کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچاتی ہیں ۔ جہاں تعلیم کا فقدان ہو, جہالت کا ڈیرا ہو اس ملک کو پستی کی طرف جانے میں دیر نہیں لگتی۔معاشرے کومہذب بنانے میں سب سے اہم کردار اساتذہ کا ہوتا ہے استاد کو اللہ تعالٰی نے جو اونچا اور مقدس مقام دیا وہ کسی اور کا نہیں یہ پیشہ اتنا مقدس ہے کہ اس کے تقدس کا انداذہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے یہ پیغمبرانہ پیشہ ہے ,انبیاء کی وراثت ہے نبی پاک ۖکا ارشادِگرامی ہے کہ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ” تواساتذہ ایک وقت میں دو رحمتوں کا فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں ایک تنخواہ کا اور دوسرا نبی اکرم ۖکی سنت پوری کرنے کے ثواب کا ۔ اسلام نے جو اساتذہ کو مقام دیا ہے اس سے کون واقف نہیں ہو گا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ واقفیت تو ہمیں ہے “احساس” نہیں ہے ۔ جس طرح والدین ” اولڈہومز “میں پہنچائے جا رہے ہیں اسی طرح یہ روحانی والدین اس احترام اور عزت کو ترس گئے ہیں جو کبھی ان کو ملا کرتی تھی اسلام نے استاد کو “روحانی والد” کہا ہے یہ وہ والدین ہیں جو ہمیں زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں والدین انسان کی جسمانی پرورش کرتے ہیں اور استاد ان کی روحانی پرورش کرتا ہے اور روح کا پاکیزہ ہونا بہت اہمیت کا حامل ہے حضرت علی کے اس قول سے استاد کا رتبہ سمجھ میں آ جاے گا آپ فرماتے ہیں “جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھا دیا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیااب چاہے تو وہ مجھے آزاد کر دے چاہے تو رکھ لے”
امام غزالی فرماتے ہیں۔
“جب تک تم علم کو سب کچھ نہ دے دو علم تمہیں اپنا کوئی حصہ نہیں دے گا ” ا ستاد انسانیت کا محسن ہے یہ انسان کو اس مقام تک اور مرتبے تک پہنچانے کا وسیلہ بنتا ہے جس مقام کو کسی اور طریقے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا لیکن آج کا استاد ان طلباء کی تلاش میں ہے جو اسے وہی عزت وہی احترام دے سکیں جو علامہ اقبالاپنے استاد کو دیتے تھے شاید علامہ اقبال جیسی ہستی کے نہ پیدا ہونے کی ہارون رشید جیسی ہستی کے ناپید ا ہونے کی یہی وجہ ہے۔ جب اساتذہ کا احترام ویسے ہوگا جیسے مولوی میر حسن کا ہوتا تھا تبھی اس قوم کو اقبال جیسی ہستیاں ملیں گیں جب تک وہ ہم اپنے بچوں کو دوسروں کی عزت کرنا نہیں سکھائیں گے ہیں تب تک وہ ہماری عزت و احترام بھی نہیں کریں گے ہماری نئی نسل کو ہم نے کنفیڈینٹ بنانے کے چکر میں اوور کونفیڈینٹ بنا دیا ہے والدین کی مصروفیات بچوں کی تربیت کرنے میں رکاوٹ ہیں اور بچے وہ سیکھ رہے ہیں جو نہیں سکھینا چاہیے ۔ کہاوت ہے “با ادب بامراد بے ادب بے مراد “جو عزت دے گا وہ مرادیں پائے گا لہٰذا والدین اور اساتذہ کا احترام کرنا سیکھئیے اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی سکھایئے علامہ اقبال کے استاد کے ادب کے احترام میں کئی واقعات مشہور ہیں کچھ آپکے ساتھ شئیر کرتی چلوں ایک دفعہ علامہ اقبال کسی دکان پر باہر بیٹھے ہوے تھے کہ وہاں سے ان کے استاد محترم کا گزر ہوتا ہے۔
جب استاد محترم نظر آتے ہیں تو اتنی جلدی کرتے ہیں کہ بھاگ کر پہنچ جائیں ایک جوتا پہنا جاتا ہے اور دوسرا نہیں خیال صرف یہ ہے کہ بھاگ کر سلام کر سکوںپھر مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دلوایا کیسے دلوایا یہ ہم بچپن سے نصا بی کتب میں پڑھتے آ رہے ہیں یہ وہ لوگ تھے جو استاد کے مقام ومرتبے کو جانتے تھے آج کل جہاں بچوں کا رویہ قابلِ مذمت ہے وہاں چند اساتذہ کو بھی اپنی اصلاح کی ضر ورت ہے ہر دوسرے دن نیوز چینلز پر سکول میں بچوں پر تشدد کی وڈیوز اور خبریں دل دہلا دیتی ہیں ۔ بچوں کے ا ساتذہ سے بدظن ہونے کی ایک وجہ ان کا ایسا طرزعمل بھی ہے۔ ایسے اساتذہ کو یہ علم ہونا چاہے کہ بہت ذیادہ سزا بچے کی شخصیت کو بگاڑ دیتی ہے۔ استاد کو اپنے طلبا کے لئے محبت وشفقت کا پیکر ہونا چاہئے۔ایک اچھا استاد وہی ہوتا ہے جو اپنے طلباء کی نفسیات سے آگاہ ہو جو طلباء کی ذہنی سطح پر آ کر پیارو محبت سے اپنی بات منوانے کا ہنر جانتا ہو۔ اب ایک جھلک گورنمنٹ اساتذہ اور ان کو د ر پیش مسائل کی دکھا تی چلوں۔
حکومت پنجاب کی موجودہ پالیسیاں جو انہوں نے سرکاری سکولوں کے حوالے سے بنائی ہیں وہ ہیں تو بہت اچھی لیکن یوں لگتا ہے کہ جانبدرانہ اور زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کر کے بنائی گئی ہیں کوئی بھی پالیسی اسی وقت کامیاب رہتی ہے جب اس کو تمام حقائق ‘مسائل’اور وسائل کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے ایسی قا نونی پا لیسیا ں تو بن گئی لیکن انہوں نے وہ آوٹ پٹ نہیں دی جو توقع کی جا رہی تھی اور نہ ہی تب تک مل سکتی ہے جب تک ان پالسیوں کو درست نہ کیا جائے آپ نے سرکاری سکولوں میں بھیجے گئے اساتذہ کو یہ حکم تو جاری کر دیا کہ آپ کو رزلٹ شاندار چاہیے تاکہ یہ سکول پرائیویٹ سکولز کے برابر آ کھڑے ہوں لیکن جن صورتِحال کا سامنا سرکاری سکولز کے اساتذہ اور بچوں کو کرنا پڑتا ہے ویسی کسی بھی صورتحا ل سے پرائیویٹ سکول کا بچہ گزرتا ہے اور نہ ہی استاد۔ کسی بھی طالبعلم کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے ,ا سے بہت آگے لے جانے کے لئے جہاں استاد اورطالبعلم اہم ہیں وہیں تیسرا عنصر والدین ہیں بغیر ان کے تعاون کے اکیلا استاد بچے کی شخضیت کو کیسے نکھار سکتا ہے ؟ ایک استاد کے پاس طالبعلم چھ گھنٹے رہتا ہے باقی اٹھارہ گھنٹے وہ گھر یا گھر کے باہر کیسے گزارتا ہے ؟وہ گھر جا کر پڑھتا ہے یا نہیں وہ کن سر گرمیوں میں اپنا وقت صرف کرتا ہے؟اس میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے یا نہیں؟یہ وہ باتیں ہیں جن کا والدین کو علم ہونا ضروری ہے لیکن سرکا ری سکول کے والدین کی اس طرف کوئی تو جہ نہیں۔
آج کی تعلیمی پالیسیاں اساتذہ سے شاندار رزلٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن ان حقائق کو یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے۔ جسکا سامنا کرتے ہوئے سرکاری سکول کا استاد بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔ میڈیا نے بہت بار سرکاری سکول کے اساتدہ کی پیروڈی کی اس کی کمزوریاں دکھائیں لیکن کسی چینل کسی پروگرام کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ان اساتدہ کے مسا ئل پر روشنی ڈال دے۔یقین مانیں اگر ان کے مسائل دکھائے جاتے تو بھی آپکے چینلز کی ریٹنگ بڑھنی ہی تھی۔ نجی سکولوں کے بچے کیوں آگے ہیں تو اسکا اندازہ ہمیں دونوں قسم کے سکولوں کا موازنہ کرنے سے ہو جائے گا۔۔ نجی سکولوں کے بچوں کو ان کی بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ صحت مند خوراک اور عیش وآرام بھی میسر ہوتا ہے۔ پیرنٹ ٹیچر میٹنگ بچوں میں آگے بڑھنے کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی مزید ذمہ دار بناتی ہیں۔ اگر صرف ان دو عناصر کو ذہن میں رکھ کر سرکاری سکولوں کی طرف آئیں ان سکولوں میں پڑھنے والے طلبا کو عیش وآرام تو بعد کی باِِت ہے بنیادی ضروریات بھی میسر نہیںہوتیں۔سکولوں سے واپس جانے کے بعدبچوں کو سکول کو بھلا کر گھر کے لئے کچھ کرنا ہوتا ہے۔
وہ وقت جو وہ پڑھائی کودے کر بہت آگے بڑھ سکتے وہی وقت وہ اپنی بنیا دی کے ضروریات کو پورا کرنے کے لئے والدین کی مدد میں گزار تے ہیں اور رہ گئی بات والدین کے سکول میں تعاون کی تو ان بیچاروں کو تو روزی روٹی حاصل کرنے سے فرصت نہیں ملتی تو بچے کے سکول آکر وہ کیا اس کے بارے میں جانیں گے اور کیا استاد کے ساتھ تعاون کریں گے میں نے پنچاب کے کئی گائوں میں ایسے سکولز بھی دیکھے ہیں جہاں سردیوں میں سکول آنے والے طلباء کے پائوں میں جوتا تک نہیں ہوتا بچے سکول سے جانے کے بعد کھیتوں میں یا وڈیروں کے ڈیروں پر کام کرتے ہیں اور صبح کو ویسے ہی گندے مندے ,بغیر منہ دھوئے ,بستے اٹھاے سکول آ جاتے ہیں سکولوں کے ایک دو ہیڈ ٹیچرز سے پوچھنے پر یہ بھی علم ہوا کہ کئی دفعہ کو شش کی ہے کہ طلبا ء کے والدین کو سکول بلایا جائے تا کہ وہ دلچسپی لیں لیکن کامیابی نہ ہوئی ایسے حالات میں رہتے ہوئے بھی اگر سرکاری سکولز کے اساتذہ آپ کو شاندار رزلٹ دے رہے ہیں تو آپ کو یقینا انہیں سراہنا چاہیے۔
ہم نے اپنے ملک میں اس نظام میں بھی یورپی ممالک کو کاپی کونا شروع کر دیا ہے آپ نے طالب علم کو بنیادی حیثیت دی اور اساتذہ کو ثانوی یہ ٹھیک ہے ۔فیل ہوجانے والے طلباء کو فیل نہ کرنا اور ان کو بغیرپاس ہوئے اگلی جماعتوں میں بٹھائے جانا یہ کیا ہے ؟کیا ایسا تو نہیں کہ کوئی یہ چاہتا ہے کہ نا لا ئق سے نا لائق بچہ پاس کر کے ڈگری دیتے جائو تا کہ جب وہ فیلڈ میں آئے تو میرٹ لگا دو وہ بھی بہت اونچا اور یہ بغیر پاس ہوئے اگلی جماعتوں میں بٹیھنے والا طالبعلم اس بات کا احتجاج نہ کر سکے کہ آپ اسے نوکریاں نہیں دے رہے وہ احتجاج کرے گا بھی کیسے کہ وہ تو معیارپرپورا نہیں اترتا ہائی میرٹ دیکھ کر وہ یہیں سوچے گا کہ میرٹ پہ نہیں آیا یہ سوچ تو پیچھے رہ جائے گی کہ مجھے نوکری نہیں دی گئی یہ تعلیمی نظام اس محکمے کی بنیادں کمزور کر رہا ہے۔ اور جو بات سب سے مضحکہ خیز لگتی ہے وہ یہ کہ قابلیت کے مطا بق عہدے نہیں دے جاتے۔ ایم فل اساتذہ نویں سکیل پر کام کر رہے ہیں یعنی ہمیں ٹیلنٹ استعمال ہی نہیں کرنا آتا اگر لوگوں کو ان کی قا بلیت کے مطا بق عہدے دیے جائیں تو شاید تب ہی لوگ اس محکمے کے ساتھ مخلص ہو سکتے ہیں۔
وہیں قابل ٍ افسوس حالت یہ کہ جب یہی اساتذہ سکول سے فارغ ہو کر سکول کے کاموں کے سلسلے میں دفتر جاتے ہیں تو پانچویں چھٹے سکیل کے کلرک 17گریڈ کے استاد کے ساتھ ایسے رویہ اختیار کرتا ہے جیسے وہ کوئی کام کرنے نہیں ”بھیک”مانگنے آیا ہو۔ مجھے یہاں اشفاق احمد کی بہت پیاری بات یاد آ رہی ہے کہتے ہیں “میں یورپی ملک میں تھا میرا وہاں چالان ہو گیا اور مجھے عدالت جانا پڑا میں جب دیر سے پہنچا جج صاحب نے دیر سے پہنچنے کی وجہ پوچھی میں نے کہا کہ سر میں استاد ہوں اور—–ان کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی جج صاحب یہ کہہ کر احتراماَّ کھڑے ہو جاتے ہیں” A teacher is in the court واہ ! کیا احترام ہے ۔۔۔ان کی پالیسیاںچرانے والے , ان کو نقل کرکے اس محکمے میں بہتری لانے کے خواب دیکھنے والے ایسی باتوں کو کیوں نقل کرتے۔
ایک مزدور کو جب عزت دی جائے گی تو ہی وہ مالک کا کام خوشدلی سے کرے گا ۔ استاد کی عزت کیجئے , اس کے مقام کو پہچانیے ۔جب آپ اپنی اولاد کو روحانی والدین کی عزت کرنا سیکھائیں گے تو وہ آپ کی خود بخود عزت کریں گے۔ آخری بات اساتذہ سے کہ اپنے کام کیساتھ , اپنے شعبے کے ساتھ , اپنے طلباء کے ساتھ مخلص رہیں ۔آپ معمار قوم ہیں اس معاشرے کی ترقی میں سب سے اہم کردار آپ کا ہے۔ آپ ہی پر منحصر ہے کہ آپ معاشرے کو کیسے طلباء دیتے ہیں۔وہ جو معاشرے میں تخریب کاری کریں یا وہ جو اس ملک کی تعمیرو ترقی میں حصہ لیں ۔آپ کے سکول کے آخری لمحے تک کے پیسے بطورِتنخواہ حکومت آپ کو دیتی ہے یعنی آخری لمحے تک کا وقت آپ سے خریدا گیا ہے لہٰذا سکول ٹائم کے آخری لمحے تک سکول کے ہی رہیے اور اپنا کام ذمہ داری سے انجام دیکر خود بھی حلال کھائیے اور اپنی نسلوں کو بھی حلال کھلائیے۔ آپ بھی مطمئن رہیں گے اور اللہ بھی آپ سے راضی ہو جائے گا اور یہ ملک بھی یقینا ترقی کی طرف گامزن ہو گا ۔۔۔ اللہ ہم سب کا حاکی و ناصر ہو خوش رہیے اور خوش رکھیے۔۔۔
تحریر : نادیہ خالد چوہدری