سوال اہم تھا‘ جواب اس سے بھی اہم آیاعمران خان اگر ریاستی اسٹیبلشمنٹ کو اتنا ہی عزیز تھے تو انہیں پندرہ سولہ نشستیں جتوا کر اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے آزاد نہیں رکھا جا سکتا تھا۔جواب ایک سینئر صحافی کو ملا! ’’آپ اسی سے اندازہ کریں کہ عمران خان کو کامیاب کرانے کا الزام اگر درست ہوتا تو یہ پندرہ نشستیں بھی دلوائی جا سکتی تھیں‘‘۔ اس سوال کا تعلق عمران خان کے اتحادیوں مسلم لیگ ق ‘ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے ساتھ تعلقات سے ہے۔ آج تک ملک میں کام تو ہوا نہیں۔ بس مسائل کے بیج بوئے جاتے رہے۔ فصل تیار ہے ‘خار ہیں کہ درانتی بدست حکومت کو زخمی کئے جاتے ہیں۔ جونہی حکومت نے پہلے چھ ماہ پورے کئے مسلم لیگ ق نے طارق بشیر چیمہ کے ذریعے ایک پیغام عمران خان کو دیا۔ طارق بشیر چیمہ وفاقی وزیر ہیں۔ انہوں نے مخالفانہ باتیں شروع کر دیں۔ اپنی ہی اتحادی حکومت کے خلاف ادھر ادھر بیانات داغے۔ ریاست کے بین الاقوامی مفادات کے لئے لڑتے ہوئے عمران خان کو تاثر ملا کہ مسلم لیگ ق کے کچھ لوگ ن لیگ سے رابطے میں ہیں اور یہ دونوں لیگیں ان کی وفاقی و پنجاب حکومت کو ڈھیر کرنے پر صلاح مشورہ کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کو ملاقات کے لئے مدعو کیا۔ اس ملاقات سے قبل چکوال سے منتخب ایک ق لیگی صوبائی وزیر کابینہ سے الگ ہونے کا اعلان کر چکا تھا۔ پنجاب میں گورنر چودھری سرور اور سپیکر پرویز الٰہی کے مابین اختلافات کی ایک ویڈیو سامنے آ چکی تھی اور طارق بشیر چیمہ جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے اپنا موقف حکومت سے مختلف انداز میں ظاہر کر چکے تھے۔ عمران خان نے چودھری برادران اور ان کے پارلیمنٹرین بیٹوں کو کیسے مطمئن کیا یہ الگ کہانی ہے۔
اصل بات یہ کہ عمران خان کواحساس دلایا گیا کہ ان کا اقتدار مسلم لیگ ق کے ستون پر کھڑا ہے۔ سندھ میں کئی عشروں سے بھٹو کی قبر کو ووٹ مل رہا ہے۔ اب شہید رانی کے نام پر ووٹ لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ بہرحال دونوں مرحومین کے عقیدت مند اب تک ان کے احترام میں اپنے حق کو قربان کر رہے ہیں۔عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ’’ پنجاب ان کا حق غصب کر رہا ہے۔ پنجاب نے دو سندھی وزراء اعظم کی لاشیں بھیجی ہیں‘‘۔ ایک مخصوص قسم کے عناصر نے پارٹی قیادت کو گھیر رکھا ہے جس سے اس کی وفاقی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔ سندھ کو بہتر انتظامی صلاحیت والے لوگ پیپلز پارٹی کے ذریعے نہیں مل پائے۔ پارٹی نے اب تک جتنے وزیر اعلیٰ بنائے ان کی اکثریت پیری مریدی کے سلسلے سے جڑی ہوئی ہے اور یہی ان کی پہچان ہے۔ کوئی ایسا وزیر اعلیٰ نہیں آیا جو سماج کو بدلنے‘ پسماندگی کو دور کرنے‘ صحرا میں درخت لگانے‘ جھگی نشینوں کو چھت فراہم کرنے‘ شہروں اور دیہات میں صاف پانی کی فراہمی اور تعلیمی و صحت سہولیات کی فراہمی کی فکر میں راتوں کو جاگتا ہو۔ اس مزاج کے سندھیوں اور ان کے حکمرانوں کے ساتھ کراچی اور حیدر آباد ایک مختلف سوچ لے کر چل رہے ہیں۔ یہ شہری مڈل کلاس اپنی محنت سے زندگی میں کامیاب ہوئی ہے اس لئے اس پر سیاسی عقیدتوں اور پیری مریدی کا اثر نہیں ہوتا۔ شہری سندھ میں اس بار تحریک انصاف جیتی ہے۔
ایم کیو ایم نے داخلی بحران کے باوجود معقول نشستیں جیتیں اور اس کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی (وفاقی وزیر) وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ’’سندھ اب عملی طور پر ایک صوبہ نہیں رہا۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سندھ میں مداخلت کریں‘‘۔ یاد رہے ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی ہے اور وزیر اعظم عمران خان اس کے وزرا کی نفاست کی تعریف کر چکے ہیں۔ ایم کیو ایم دراصل خود کو اس مقام پر لا رہی ہے جہاں وہ وزیر اعظم کو الگ صوبے کے قیام پر رضا مند کر سکے۔ عمران خان اس نکتے کو سمجھتے ہیں۔ انہیں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کی بات ہمدردی سے سنیں تاکہ جنوبی پنجاب صوبے کے لئے جب انہیں پارلیمنٹ میں حمائت کی ضرورت پڑے تو ایم کیو ایم ان کا ساتھ دے۔ جی ڈی اے کا طرز سیاست مختلف ہے۔ اس اتحاد میں ایسے الیکٹ ایبل شامل ہیں جو کسی جماعت کی قیادت کے غلام بننے پر آمادہ نہیں۔ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ اگر وہ الگ الگ رہے تو صوبے میں حکمران جماعت ان کے لئے مشکلات پیدا کرے گی۔ اس لئے انہوں نے ایک اتحاد بنا کر اپنی وفاداری مرکزی حکومت کے ساتھ جوڑ لی ہے۔ اس طرح ان کے کام ہوتے رہتے ہیں اور انہیں قومی سیاست میں اہمیت بھی حاصل رہتی ہے۔ ان کے ساتھ معاملات کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو کر ان سیاستدانوں نے خود کو انتقامی سیاست سے بچا لیا ہے۔ لیکن اگر جنوبی پنجاب کے بعد
سندھ کو دو الگ الگ صوبوں میں تقسیم کرنے کا معاملہ آیا تو جی ڈی اے کی بند مٹھی کھل سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ اراکین حکومت کا ساتھ نہ دیں۔عمران خان کچھ جنگیں اپنی اور کچھ ریاست کی لڑ رہے ہیں۔ ادارے ریاستی مفادات کی لڑائی میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں مگر عمران کی اپنی جنگ اس کے کمزور اور مصلحتوں کے مارے ساتھیوں کی وجہ سے کمزور پڑ رہی ہے۔ اداروں کی خواہش ہے کہ عمران خان سیاسی درجہ حرارت میں غیر ضروری اضافہ نہ کرے۔ وہ ایسا نہ کریں تو انہیں عمران خان کون کہے۔ عمران خان پچاس لاکھ خاندانوں کو چھت دینا چاہتے ہیں۔ عمران خان کسی شوکت خانم کو کینسر سے مرتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کرکٹ سیاست اور سفارش سے آلودہ نہ ہو۔ عمران خان کی آرزو ہے کہ غریب لوگوں کے بچے اعلیٰ تعلیمی ماحول میں پرورش پائیں وہ اپنے سیاسی مخالفین کے جرائم سے صرف نظر کرنے کو تیار نہیں۔ جن پر الزام ہیں وہ انہیںرعائت دینے کو تیار نہیں۔ ریاست چاہتی ہے عمران خان اس کے فیصلوں کا چہرہ بنے‘ ملک کی خارجہ پالیسی کو نئے بین الاقوامی مشترکہ مفادات سے ہم آہنگ کرے۔ معیشت کو بحران سے نکالے اور داخلی و خارجی استحکام کے ذریعے ملک دشمنوں کے عزائم ناکام بنانے کا کام کریں عمران خان اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عوام بھی اس توقعاتی تکون کا حصہ ہیں۔ وہ انصاف ‘ سماجی تحفظ‘ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے طلب گار ہیں۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ مدت بعد ملک کو ایسا حکمران ملا ہے جو اقتدار اپنی اولاد کو منتقل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ عمومی شہرت بھی مالیاتی معاملات میں اچھی ہے تو عوام اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی امیدیں یکایک غیر حقیقی حد تک بلند ہو گئی ہیں۔ عمران خان امید کی اس چادر سے سر چھپاتے ہیں تو پائوں باہر جھانکنے لگتے ہیں‘ پائوں کو چادر میں لیتے ہیں تو سر باہر دکھائی دیتا ہے۔