تحریر: حفیظ خٹک
مریضوں کی موجودگی کے دوران ہسپتال میں تعمیراتی کام سے طبی ماحول میں خرابی پیدا ہوتی ہے جو کہ مریضوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ مختلف بیماریوں کے سبب ہسپتال میں علاج کی غرض سے مریض داخل ہوتے ہیں جہاں ان کے مختلف لیباٹری ٹیسٹ ہوتے ہیں جن کی رپورٹ کے بعد انہیں دوائیں دی جاتی ہیں۔ بیماری کے خاتمے تک مریض کو صاف اور پرسکون ماحول مہیا کیا جاتا ہے ۔کشادہ پرسکون ماحول اور دواؤں کے بروقت استعمال کے باعث مریض ان بیماریوں سے نجات پا کر ہسپتال سے رخصت ہوتے ہیں اور اس کے بعد اپنی عملی زندگی کو صحتمندانہ انداز میں گذارتے ہیں۔
زندگی کے خاتمے پر ہمارا یقین ہے تاہم اس خاتمے کو جسے ہم موت وانتقال کہتے ہیں ، اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔طبی موت ،قتل اور خودکشی ۔طبی موت ہر طرح سے اللہ کی جانب سے ہے اور ہر بشر کو یہ وقت دیکھنا اور اس مرحلے سے گذرنا ہے تاہم قتل اور خودکشی کا معاملہ بالکل ہی مختلف ہے۔ قتل و خودکشی حرام ہیں۔حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔مذکورہ دونوں کیفیات کیلئے ہسپتال ایک جگہ ایسی ہے جہاں لوگ اپنے پیاروں کو بیماریوں سے شفاکے حصول کیلئے بڑی آس وامید کے ساتھ پہنچتے ہیں ، لیکن وہاں وہ مریض غلط طریقہ علاج و دوا سمیت ماحول سے انجانے میں قتل ہوجاتے ہیں۔
دنیا کے بڑے ہسپتالوں میں انفیکشن سے مرنے والوں یا دیگر مختلف بیماریوں کا شکار ہوجانے کا تناسب بہت زیادہ ہے اس سے بچنے کیلئے انفیکشن کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔جس میں خاص طور پر ہسپتال کے عملے کے ہاتھوں کی صفائی ،سرنجز اور ٹیوب وغیرہ کی صفائی کا یقینی ہونے ،آپریشن میں اور اس کے بعد زخموں کی صفائی کے اوزاروں کی صفائی کا ہونا شامل ہے۔ہسپتال کے ماحول پر بھی گہری نظر رکھی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہسپتال میں وقتا فوقتا تعمیراتی کام بھی سرانجام دیئے جاتے ہیں جو کہ ہسپتال کی توسیع و ترقی سمیت مریضوں کی بہتری کیلئے ضروری ہیں۔لیکن شاید اس بارے میں لوگ اتنا خیال نہیں کرتے کہ تعمیراتی سامان مریضوں کیلئے کس قدر خطرناک ہوسکتا ہے۔ہسپتالوں کی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں فضا میں اڑنے والے گردوغبار اپنے ہمراہ بہت سے جراثیموں کے ساتھ ایک خاص قسم کے فنگل کو بھی لیکر اڑتا ہے جو کہ سانس لینے سے ناک میں پہنچتا ہے اور پھیپڑوں میں جاکر ایسے لوگوں کیلئے خطرناک ہوجاتا ہے جو ہسپتال میں بوجہ داخل ہوتے ہیں۔مریض کی اپنی بیماری اسے ویسے ہی کمزور اور لاغر بنا دیتی ہے ۔اس کو ان بیماریوں سے لڑنے کے ساتھ اور ناگہانی بیماریوں کا مقابلہ کرنا اس کیلئے مشکل ہوجاتا ہے اور ایک مرحلے پر وہ اس دور فانی سے ہی کوچ کرجاتا ہے ۔وطن عزیز میں حکومتی ہسپتال کا تو معاملہ بالکل ہی جدا ہے۔ہسپتالوں میں مریضوں کی موجودگی کے دوران تعمیراتی کاموں کو برا نہیں سمجھا جاتا ہے ،ایسے کاموں کے دوران جو مریض اس ہسپتال میں زیر علاج ہوتے ہیں کاموں کے باعث ان کے ذریعے پھیلنے والے جان لیوا جراثیموں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔یہ وہ قتل ہوتے ہیں جن کا قتل ہونے والوں کو کچھ علم ہوتا ہے اور نہ ہی قتل کرنے والوں کو پنے کاموں کا کچھ علم ہوپاتا ہے۔لہذا اس ضمن میں ہسپتال انتظامیہ کو اس بارے میں علم ہونا چاہئے ، ان مقاصد کیلئے تجربہ کار لوگوں کو رکھا جانا چاہئے اور اس کے ساتھ ان کے مشوروں پر عمل کرنا ضرور ہونا چاہئے۔
شہر قائد کے بڑے سرکاری ہسپتال جناح سے ملحق NICHنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ واقع ہے پانچ منزلہ عمارت بچوں کو سرکاری ہسپتال کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ وہاں مریض بچوں کی موجودگی میں مختلف وارڈ کے اندر او ر باہر تعمیراتی کام ہوئے۔ اس کے ساتھ مریضوں اور ان کے والدین کیلئے بنی تین عدد لفٹ میں بھی کام ہوئے ۔ پانچ منزلہ عمارت میں مذکورہ تعمیراتی کام کا سلسلہ اب بھی کچھ منزلوں پر جاری ہے۔ ایک فلور پر موجود ڈاکٹر رضوان نے اس حوالے سے کہا کہ مریضوں کی موجودگی میں تو ہسپتال کی عمارت میں کہیں بھی کام نہیں ہونا چاہئے ، تاہم NICH میں یہ تعمیراتی کام مریضوں کی بھلائی ہی کیلئے کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحال تو یہ کہنا درست ہے کہ حساس مریضوں سمیت دیر عام مریضوں کو بھی گرد و غبار سے نقصان پہنچتا ہے تاہم یہ بھی طے ہے کہ اس تعمیراتی کام کے بعد مریض بچوں کو ہی صاف ستھرا ماحول دستیاب ہوگا۔
عملے کا کہنا تھا کہ وارڈ کی درمیانی راہدری میں جو کام ہوتا ہے اس موقع پر گرد سے بچنے کیلئے چہرے پر رکھنے کیلئے ماسک دیئے جاتے ہیں تاہم ان کا استعمال بھی کم ہی ہوتا ہے۔ مریض بچے کے والد عادل کا کہنا تھا کہ ہمیں ہسپتال میں سب سے زیادہ فکر اپنے بچے کی ہوتی ہے وہ جلد ی سے ٹھیک ہوجائے اور ہم یہاں سے چلے جائیں ، تعمیراتی کاموں سے شور تو ہوتا ہے لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ مریضہ بچی صائمہ کی والدہ نے کہا کہ پہلے ہی ہمیں اپنی بچی کی بیماری کی وجہ سے بے چینی ہوتی ہے نیند نہیں آتی اور اس دوران یہ جو کام وارڈ میں ہوتے ہیں اس سے شور ہوتا ہے جس سے بچوں سمیت ہمیں بھی بہت تکلیف ہوتی ہے۔ تعمیراتی کاموں میں مصروف محنت کشوں کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کام کو جلد از جلد مکمل کریں اور مریضوں کو دیگر لوگوں کو ہمارے کاموں سے تکلیف نہ پہنچے۔ ان کے ٹھیکیدار کا کہنا تھا کہ جہاں کام ہوتا ہے وہاں شور تو ہوتا ہی ہے۔لیکن ہم ہسپتال میں کام کے دوران کوشش کرتے ہیں کہ مریضوں کو کم سے کم تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔
انفیکشن کنٹرول کے ماہرین کا کہناتھا کہ زیر تعمیر کسی بھی عمارت بیماروں کیلئے مضر ہوتی ہے ، ان کاموں کے باعث کچھ جراثیم ہوتے ہیں جو کہ فضا کو خراب کرتے ہیں اور انسانی جسم میں سانس کے ذریعے پہنچ کر عام انسانوں کو مریض اور مریضوں کی بیماریوں میں مزید اضافہ کردیتے ہیں۔ ایک اور ماہر انفیکشن کنٹرول ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ جدید ہسپتالوں میں ، جہاں مریضوں کی صحت ، کا ان کو مہیا کئے گئے ماحول کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے ان میں جب بھی تعمیراتی کام ہوتا ہے تو اس جگہ کو ہر طرح سے (cover)ڈھانپ دیا جاتا ہے ۔ جس سے کام کے بہتر ہونے کے ساتھ پہنچنے والے نقصانات بھی ذرا کم ہی ہوتے ہیں ۔ اس جگہ پر کسی بھی مریض کو جانے نہیں دیا جاتا ان سمیت ہسپتال کے عملے کو بھی زیر تعمیر کاموں سے دور رہنے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔
بظاہر معمولی نظر آنے والے زیر تعمیر اقدام کے نتائج کچھ عرصے میں ہی پتہ چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ غیر سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی موجودگی میں اس طرح کے اقدامات کئے جاتے ہیں جو قابل توجہ ہیں ۔زندگی سبھی کی اہمیت ک حامل ہوتی ہے تاہم اس میں بھی انفیکشن کنٹرول کے بارے میں علم سب کو ہی ہونا چاہئے ۔اس علم کو پھیلانے اور اس سے عوام کو روشناس کرانے کیلئے حکومت کو اور ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کسی بھی ہسپتال میں تعمیراتی کام ہوتا ہے اور ہوتا رہنا چاہئے تاہم اس کیلئے احتیاطی تدابیر بھی لازمی مدنظر رکھی جانی چاہئیں۔
تحریر: حفیظ خٹک
hafikht@gmial.com