تحریر: رقیہ غزل
مجھے مشہور انگریز مصنف آسکر وائلڈ کی شاہکار “The Happy Prince” بہت یاد آ رہی ہے، کہ وہ کہانی کس قدر حقیقت سے قریب تر ہے جس میں لکھتا ہے کہ ہیپی پرنس جب تک اپنے اونچے محل سے دیکھتا تھا اسے سب کچھ خوبصورت ہی نظر آتا تھا اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلتی تھی وہ حقائق سے کوسوں دور تھا مگر جب اس کے مرنے کے بعد اس کا مجسمہ ایک اونچی جگہ نصب کر دیا گیا جہاں سے اس کا سارا ملک خاص کر غربا ء کے جھونپڑے نظر آتے تھے تو اس کی مسکراہٹ آنسئووں میں تبدیل ہو گئی اور اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنا جیون بیکار گزار دیا ۔اس کے محل کے دریچوں سے تو یہ غم نظر ہی نہیں آتے تھے بلاشبہ آسکر وائلڈ نے زمینی حقائق کو بہت عمدگی سے بیان کیا تھااور آج بھی حالات کچھ ایسی ہی تصویر پیش کر رہے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاسی شعبدہ بازوں کو حقائق تب تک نظر نہیں آئیں گے جب تک ان کے مجسمے کسی اونچی جگہ نصب نہ کر دیئے جائیں۔
ہم تنقید کا جواب ترقی کی رفتار سے دیں گے !مفاد پرست سیاستدان ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں !لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے !داسو اور بھا شا ڈیم بنائیں گے ! پنجاب میں تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کیا جا رہا ہے!کیا غریب کو باعزت سواری نہیں ملنی چاہیئے ؟کیا غریب کے بچے سکول نہ جائیں ؟ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں اور شعبہ صحت میں تبدیلی لائی گئی ہے !لیپ ٹاپ اپنی مثال آپ منصوبہ ہے اورنج ٹرین کا کام بھی مکمل ہو گیا ہے !اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر سچ بولا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل ہونا چاہیئے !اب ملک حقیقت میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔۔۔۔ ان خیالات کے اظہار میاں نواز شریف نے حال ہی میں ضمنی الیکشن کے بعد اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کیا جو کہ پی ٹی آئی کے مطابق الیکشن کے ضابطہء اخلاق کی صریحاً خلاف ورزی تھی جبکہ الیکشن کمیشن کے مطابق ؛کیونکہ اس میں نئے منصوبوں کا اعلان نہیں تھا اور نہ ہی کوئی فنڈ جاری ہوا ہے لہذاسب ٹھیک ہے یعنی یہ الیکشن مہم کا حصہ ٹھہری نہیںکیونکہ ہمارے ہاں۔۔
الیکشن مہم میںطولاً کراہاً بے ضابطگیاںقابل قبول سمجھی جاتی ہیں ،” ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ”ترقیاتی منصوبوں اور تعلیی منصوبوں کے ہم خلاف نہیں مگر کیا کیا جائے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیںاور یہاں معاملہ یہ ہے کہ ان شوباز منصوبوں کی گونج امریکی ایوانوں سے ٹکرانے لگی ہے کیونکہ اسی قسم کے خیالات کا اظہار میاں صاحب کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے امریکہ دورہ کے دوران خاتون اول ،مشعل اوباما کے سامنے کیا کہ تعلیم کی مد میں گرانقدر خدمات سر انجام دی جارہی ہیں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اس ملک کا بچہ بچہ سکول نہیں چلا جاتا۔
ہم تو اس بارے سوچ کر فکر مند تھے کہ اس موقع پرکہیں مشعل اوباما، دی ٹائمز ہائیر ایجوکیشن کی حالیہ رپورٹ کا ذکر ہی نہ کر دیں جس کے مطابق دنیا کی سو جامعات میں ایک بھی پاکستان کی یونیورسٹی شامل نہیں تھی ،یا یہ ہی نہ پوچھ لیں کہ آپ نے تعلیم کے شعبے میں کیا کام سر انجام دئیے ہیں یا آپ اپنے وطن عزیز میں کس قابلیت و منصب کی بنا پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں یہ تو وہ ڈر تھے جو بلا شبہ مریم نواز کو بھی کہیں نہ کہیں ہونگے مگر حیران کن بات یہ رہی کہ ہم نے ایک بار پھراپنی جغرافیائی اہمیت کو پس پشت ڈال کر اپنے جائز مطالبات کو شہنشاہ مغرب کے سامنے یوں پیش کیا جیسے اگر یہ مسائل حل ہوجائیں تو یہ ایک” احسان کبیرہ ”ہوگا۔
جبکہ ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ امریکہ ہمارے ”مسائل” اور ہماری ”کمزوریوں ”سے واقف ہے ،اس لیے وہ ہمیشہ ڈبل پالیسی کے ساتھ ہمارے ساتھ معاملات طے کرتا ہے اور موقع ملتے ہی اپنی خواہش اور ضرورت کو ہی ہم پر مسلط کرتا ہے اب کی بار بھی کچھ نیا نہیں ہوگا اس لیے اس پر مزید گفتگو بے معنی ہے ،اصل مدعا تو یہ ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی و کامیابی کا انحصار ”تعلیم ” پر ہے اور ہمارے بعد آزاد ہونے والی اقوام اگر ہم سے آگے نکل گئیں ہیں تووہ صرف تعلیمی شعبے میں نمایاں کامیابیوں کی وجہ سے جبکہ ہمارا ہر منصوبہ ،ہر قرار داد ”وقت ٹپائو پالیسیوں ” یا ”شو بازیوں ” کے سوا کچھ نہیں ہوتے اور انڈر دی ٹیبل تمام فائلز مک مکائو کے تحت مکمل ہو جاتی ہیں اورعوام کے ہاتھ دلکش وعدوں اور سرابوں کے سوا کچھ نہیں آتا ۔آتے ہیں تو تشہیری منصوبے جن کی چکا چوند سے صرف آنکھیں ہی چندھیا سکتی ہیں فائدہ کچھ نہیں ہو سکتا۔
دور کیوں جائیں ایم ایم عالم روڈ (لاہور)کی ہی بات کر لیتے ہیں یہ وہ جگہ ہے جہاں آج کل اکثرخوشبوئوں میں بسے دانشوران ،اعلی افسران ،سیاسی عہدے داران اور صحافی بیٹھ کر ملکی مسائل ہی نہیںاپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے بھی جشن مناتے ہیں اور ان پراجیکٹس کو سپورٹ کر نے کا بیڑا اٹھانے والے اکثر” صحافی ”بھی یوںمدح سراہی کرتے ہیں جیسے یہی وقت کی ضرورت تھی اور اگر انھیں پوچھا جائے کہ کیا واقعتایہی وقت کی ضرورت تھی ؟تو سیدھی سناتے ہیں، اسی ایم ایم عالم روڈپر نو عمر معصوم بچے کچرا اٹھاتے ہیں ،بیرا گری کرتے ہیں اورمالکوں سے بے نقط کی بھی سنتے ہیں اور اسی روڈ کے پا رقریب ہی ریلوے لائین پر بیٹھ کر دس پندرہ روپے کی روٹی کھاتے ہیں ۔تو ہم کس مستقبل کی بات کرتے ہیں۔
کیا ترقی اسے کہتے ہیں ؟ کیا تعلیمی انقلاب ایسا ہوتا ہے؟ کیا گورنمنٹ سکولز میں تمام سہولیات میسر ہیں ؟ کیا غریب کے پاس اتنی استطاعت ہے کہ وہ اپنے بچے کو سکول بھیجے اور اس کی ضروریات بھی پوری کرے ؟بلاشبہ! حالیہ حکومتی پراجیکٹس میگا پراجیکٹس کہلاتے ہیں اور عالمی دنیا میں ہی نہیں بلکہ اشتہارات میں بھی بلا کی کشش رکھتے ہیں مگر مقام افسوس یہ ہے کہ ان سے ایک مخصوص طبقہ ہی مستفید ہو رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پیسہ جو اہم بنیادی ضروریات اور سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے استعمال ہونا چاہیئے تھا وہ سارے کا سارا مخصوص مقاصد اور ان منصوبوں کے کرتا دھرتا کے گھروں کو ہی روشنائی اور شہنائی دے رہا ہے ایسے میں عوام مسلسل بد ظن ہو رہے ہیں اور اس کے کچھ اثر ات ضمنی انتخابات میں بھی دیکھے گئے ہیں اور اب بلدیاتی انتخابات کی بساط بچھ چکی ہے۔
جھوٹے دل کش وعدوں اور نعروں سے ایک بارخدائی قہر نے شہر لرزا دئیے ہیں دیکھتے ہیں اب کی بار بادل کہاں برستا ہے اور کون سوکھا کھاتا ہے ۔ہمارا مدعا تو یہ ہے کہ پہلے عوام کو بنیادی سہولیات مہیا ہوں ،پیٹ میں روٹی نہ ہو تو میٹرو اور لیپ ٹاپ کا کسی نے کیا کرنا ہے ،جہاں زندگی بیماری سے ہار رہی ہو ایسے میں میگا پراجیکٹس کا کیا فائدہ یہاں تو حال یہ ہوگیا ہے کہ ہسپتالوں میں دوائی ہی نہیں مل رہی کہہ دیا جاتا ہے کہ مہنگی ادویات بازار سے لیں وہ مزدور جوپانچ دس ہزارروپے ماہانہ کماتا ہے وہ ادویات کہاں سے لائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ اکثرمیڈیا گروپس نے چیریٹی کے نام پر اپنے اپنے کاروبار سجا لیئے ہیں جہاں ایسے ہی مجبور خاندانوں کو اسکرین پر بٹھا کر پیسے لیے جاتے ہیں ،کسی کو اس حد تک ننگا کر دینے سے اُس کی سفید پوشی کا بھرم باقی رہ جاتا ہے؟ اور کیا یہ سب اس ملک میں جہاں ترقی کے شادیانے بج رہے ہوں ایسے کرنے کی ضرورت ہے۔
؟ دوسری طرف اکثر NGOs یہی کام کر رہی ہیں افسوس سب ہی کر رہے ہیں کیونکہ جسے کرنا چاہیئے انھیں اپنے عروج و زوال اور دھڑے بندیوں سے فرصت نہیں ہے ،تو عرض یہ ہے کہ آپ کو ووٹ جن سے چاہیئے انھیں ان تشہیری منصوبوں سے کچھ نہیں لینا انھیں اپنی بنیادی ضروریات سے مطلب ہے اس پر غور کریں کیونکہ آگہی ایوانوں سے نکل کر ڈھابوں تک آچکی ہے ۔۔۔کہیں دیر نہ ہو جائے ۔۔۔کہیں عوامی سوچ کے دھارے کا رخ ہی نہ بدل جائے ،اصلاح کی گنجائش ہر وقت موجود ہوتی ہے مگر اگر غلام گردشوں میں کھڑے خوشامدی اور ثنا خواں حکمرانوں کو انعام و کرام کے عطائی بنانے کی بجائے عوام کے دکھوں اور بندگان خدا کے مسائل کی نشاندہی کریں۔
تحریر: رقیہ غزل