تحریر : میر افسر امان بھارت کے متشدد وزیر داخلہ راج ناتھ سنگ نے گیڈر بھبکی دی ہے کہ پاکستان نے اپنی پالیسی نہیں بدلی تو اس کے پہلے دو ٹکڑے ہوئے اب دس ٹکڑے ہو جائیں گے۔وہ کہتے ہیں کشمیر میں کشمیریوں کی مدد کر کے بھارت کے مذہب کی بنیاد پر ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے اپنی پالیسی نہ بدلی تو اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔قبل اس کے بھارتی وزیر داخلہ کے گیڈر بھبکی کا تجزیہ کریں پہلے بھارت میں جاری پاکستان مخالف جاری مہم پر بات کرتے ہیں۔ بھارت کے دہشت گرد وزیر اعظم نریندہ مودی آر ایس ایس کے بنیادی رکن ہیں۔ آر ایس ایس مسلمانوں کو اپنا دشمن نمبر ون تصور کرتی ہے۔ وجہ اس کی مسلمانوں نے ہندوئوں پر اقلیت ہوتے ہوئے بھی ایک ہزار سال حکومت کی تھی۔ ہندئووں کے نظریہ قومیت کو شکست دے کر قائد اعظم کی جمہوری جد و جہد پر مذہب کی بنیاد بھارت کے دو ٹکڑے کیے تھے۔اور اس دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا تھا۔آر ایس ایس کہتی ہے کہ مسلمانوں نے ہماری گائو ماتا کے مذہب کی بنیاد پر دو ٹکڑے کیے ہیں۔ ہم پاکستان کو توڑ کر گائو ماتا کے ٹکڑوں کو آپس میں ملائیں گے جسے وہ اکھنڈ بھارت کہتے ہیں۔ انہوں نے یہ باتیں اپنے تعلیمی نصاب میں داخل کی ہوئی ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔آر ایس ایس ہندوئوں کی قدیم دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس کے منشور میں شامل ہے کہ بھارت میں ہندو رائج قائم کرنا ہے۔ اس کے پُرتشدد رویہ کی وجہ سے انگریز دور میں بھی اس پر پابندی لگی تھی۔
دہشت گرد مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو آر ایس ایس کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنی ریاستی پولیس سے حملے کروا کر کم از کم دو ہزار مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کروایا تھا۔ اس درندگی کی وجہ سے دنیا میں ایک دہشت گرد وزیراعلیٰ کا نام کمایا تھا۔امریکا نے اس درندگی کی وجہ سے مودی کا امریکا میں داخلہ بند کر دیا تھا۔آر ایس ایس کے منشور پر مودی نے بھارت میں گذشتہ عام الیکشن میں حصہ لیا۔پاکستان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اُسے کامیابی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے جس منشور پر مودی نے الیکشن جیتا تھا جس تنظیم کی مدد سے جیتا تھااسی تنظیم آر ایس ایس کے کہنے پر ہی بھارت کی پالیساں بنانے کا وہ پابند ہے۔اب بھارت میں حالات اس ڈگر پر پہنچ چکے ہیں کہ دہلی میں شک کی بنیاد پر، کہ ایک مسلمان نے اپنے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے اسے قتل کر دیا۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ گوشت بکرے کا تھا۔ٹرک پر گائے لے جانے والے دو مسلمانوں کو اس وجہ سے تشدد کا نشانا بنایا گیا کہ ٹرک پر لدی ہوئی گائے کو ذبح کرنے کے لیے لے جا رہے تھے۔ بھارت کی یونیورسٹی میں پڑھنے والے کشمیریوں کواس لیے بے دخل کر دیا کہ انہوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پر احتجاج کیا تھا۔
بھارت میں کسی نے پاکستان کے آرٹسٹوں کے پروگرام ترتیب دیا تو اُسے تشدد سے روک دیا اور پاکستانی گلوکار غلام علی کو دھمکی دی گئی کہ بھارت اپنے فن کا مظاہرہ کرنے نہ آئے۔ جس بھارتی فلم میں پاکستانی اداکاروں نے کام کیا بھارت میںاس کی نمائش روک دی گئی۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ نے پاکستان بھارت تعلوقات پر کتاب لکھی جس کی رونمائی بھارت کے ایک دانشور نے بھارت میں رکھی پہلے اسے منع کیا گیا مگر جب وہ منع نہ ہوا اور پروگرام شروع ہوتے ہی اس کے منہ پر کالک مل دی ۔ اس نے تیش میں کہا کہ یہ میرے منہ پر کالک نہیں ملی گئی بلکہ مودی کے بھارت کے منہ پر کالک ملی گئی ہے۔ بھارت میں پاکستانی کر کٹ منع ہے۔ مودی نے خود بنگلہ دیش میں اعلانیہ کہا تھا کہ پاکستان توڑ کر بنگلہ دیش ہم نے بنایا۔ بھارت کے یوم جمہویہ پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کشمیر، گلگت اور بلوچستان سے مجھے مدد کے لیے فونکال آرہی ہیں۔ صاحبو! اس سے زیادہ سفارتی آداب کی دھجیاں اُڑانے اور بزدلی جیسی دیدہ دلیری اور کیا ہو سکتی ہے۔ مودی سرکار کے بھارتی حکمران بار بار پاکستان توڑنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ایسے لاتعداد واقعات ہیں جو ایک مضمون میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔
بھارت نے ہماری ملک میں جاری دہشت گردی ، خصوصا! کراچی میں ایم کیو ایم، بلوچستان میں علیحدگی پسند براہمدان بگٹی اور امریکا کی گریٹ گیم کی پالیسی اور شہ پر اپنے ملک میںجنگی ماحول بنا دیا ہے۔ بلکہ اپنی حد تک جنگ تیاری کی ہوئی ہے۔ بھارت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ثبوتاژ کرنے کے لیے اعلانیہ فنڈ مختص کیے۔ جس پر کلبھوشن یادیو کام کرتا رہا۔پاکستان کی بری ،بحری اور فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو چکا ہے۔ ان حالات میںپاکستان کی طرف سے نواز حکومت نے معذرتانہ رویہ اپنایا ہوا ہے۔ کلبھوشن یادیو کی جاسوسی پر نواز شریف صاحب نے اپنے ہونٹ سی لیے ہیں۔ بھارتی سفارت کاروں کو جاسوسی کرنے کی وجہ سے ملک سے نکال دیا گیا اس پر بھی نواز شریف خاموش ہیں۔ ہمارے خارجہ مشیر کا بھارت میڈیا نے بیان شائع کیا ہے کہ پاکستان کے پاس کلبھوشن یادیو کی جاسوسی کے ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو اقوام متحدہ اور دنیا کو جو ڈوزیئرز دیے تھے وہ کیا تھے۔ صاحبو! اب ہم بھارت کے وزیر داخلہ کے بیان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی یہ پالیسی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا ہماری کمزور پالیسی تھی۔ایک ہزار فاصلہ اور درمیان میں بھارت کے ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا۔
اگر حکمران قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کے ویژن پر عمل کرتے اور اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں اسلام کا فلاحی نظام رائج کرتے تو بھارت پاکستان کو کبھی بھی نہیں توڑ سکتا تھا۔جب بھارت نے اپنے سیکولرزم سے ہٹ کر مذہب کی بنیاد پر مودی اپنی عوام کو جنگ کے لیے تیار کر رہا ہے تو اس کا توڑ بھی پاکستان میں مذہب کی ہی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں قائد کے ویژن کے مطابق فوراً اسلامی نظام رائج کرنے کا اعلان کر دینا چاہیے پھر دیکھیں مودی کے مذہبی بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے کس طرح اسلام کے دیوانے نواز حکومت کا ساتھ دینے کے لیے باہر نکل آتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان کے آئین نہ ماننے والوں مذہبی لوگوں کا اب زور ٹوٹ چکا ہے۔ لہٰذامذہبی حلقوں کے ساتھ اب سیاسی مذاکرات کاوقت آ گیا ہے۔
جب مودی اعلانیہ کہہ رہا ہے کہ اُسے پاکستانی کشمیر،گلگت اور بلوچستان سے مدد کے لیے فون آ رہے ہیں اور وہ پاکستان کو توڑنے کی باتیں کر رہا ہے تو پاکستان کو امن اور آلو پیاز کی باتیں چھوڑ کر ایک سابق سپہ سالارکے ایک ٹی وی انٹرویو سے اتفاق کرتے ہوئے پاکستان کو بھی بھارت کے علیحدگی کی تحریکوں، سکھوں، تامل ناڈو وغیرہ کی اعلانیہ مدد کرنے کا ڈاکٹرین تیار کرنا چاہیے۔خصوصاً کشمیر کی آزادی کی تحریک چلانے والے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ ملنے کی تحریک برپاہ کی ہوئی ہے کی کھل کر مدد کرنی چاہیے۔لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے نہیں۔ پاکستان اس وقت ایٹمی قوت ہے۔ اگر ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں والی پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے۔ اگر مودی جنگی ڈاکٹرین پر ہی چلنا چاہتا ہے اور اُس کا وزیر داخلہ ہمارے ملک کے د س ٹکڑے کرنا چاہتا ہے تو پھر ہمیں بھی اس کے بیس ٹکڑے کرنے کی ڈاکٹرین تیار کرنی چاہیے۔ یہ بھارتی وزیر داخلہ کی دھمکی کا جواب ہے۔ یہی بھارت سے نپٹنے کا طریقہ ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے آمین
۔