لاہور: جنرل (ر) اسد درانی نے را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مل کر لکھی جانے والی کتاب سپائی کرانیکلز کے دوسرے باب میں ایک جگہ آدیتیہ سنہا نے جنرل اسد درانی سے سوال کیا کہ آپ آئی ایس آئی میں کیسے شامل ہوئے اس پر اسد درانی نے جواب دیا کہ میرے آئی ایس آئی میں آنے کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ مجھے تو ایسے کام کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔ بلکہ میں ایک نارمل سا لائن آفیسر تھا۔ آئی ایس آئی میں کام کرنے کا پہلا تجربہ 1980 ءسے 1984 ءکے درمیان اس وقت ہوا جب میں جرمنی میں پاکستانی سفارتخانہ میں دفاعی مشیر تھا۔ میری پوسٹنگ کا قصہ بڑا عجیب ہے۔
ہوا یوں کہ پوسٹنگ کیلئے میرا نام گیا تو معمول کے مطابق مختلف ایجنسیوں نے میرے بارے میں معلومات اکھٹی کیں۔ ایک ایجنسی کے لوگ ماڈل ٹاو¿ن میں میرے سسرال کے گھر پہنچے میرے سسرال والے گھر پر نہیں تھے تو انہیں پڑوسیوں کے چوکیدار سے پوچھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں اس پر چوکیدار نے جواب دیا کہ اچھے لوگ ہیں اس چوکیدار کی گواہی نے مجھے یہ پوسٹ دلا دی۔
جنرل اسد درانی نے بتایا کہ جنرل ضیاءالحق کے طیارہ حادثے میں شہید ہونے کے بعد جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بنے۔ انہوں نے مجھے ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ بنا دیا۔ سچ کہوں تو میرے سر پر ناگہانی آفت تھی۔ اس کے بعد آئی ایس آئی میں تعیناتی ہوئی تو وہ بھی حادثاتی تھی۔ اگست 1990 ءمیں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کی گئی تو مجھے اس وقت عارضی طور پر آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا۔ مگر دو سال کی ایم آئی کی نوکری اور افغانستان کشمیر، اور عراق کویت پر میری گہری نظر کا باعث یہ نوکری پکی ہو گئی 18 ماہ تک میں آئی ایس آئی میں اس کے بعد واپس ایم آئی میں آ گیا۔ وہاں مجھے ایک خفیہ رپورٹ دیکھنے کو ملی جس میں مجھے سخت گیر موقف رکھنے والا فوجی لکھا گیا تھا۔
نواز شریف کی شخصیت کے بارے میں آدیتیہ سنہا کے ایک سوال کے جواب میں جنرل اسد درانی نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ میری کبھی نہیں بن سکی۔ ان کے پہلے دور حکومت میں آئی ایس آئی کا سربراہ تھا۔ میرے خیال میں نواز شیرف اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہیں بلکہ میرا تو خیال ہے کہ انہیں بعض چیزوں کے بارے میں وہم تھا۔ وہ ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ پتہ نہیں فوج اب کیا کرے گی،آئی ایس آئی اب کیا کرے گی۔ ان کی خواہش تھی آئی ایس آئی چیف میری پسند کا ہونا چاہیے۔ جب مرزا اسلم بیگ ریٹائر ہوا تو آئی ایس آئی چیف تقرر بھی وزیراعظم نے کرنا تھا۔ آرمی کبھی نہیں کہتی کہ فلاں کو آئی ایس آئی چیف لگاو¿ میں اس وقت جانے کو تیار تھا مگر میاں صاحب کا خیال تھا کہ اب آرمی چیف آصف نواز ہیں اس لیے نیا ڈی جی آئی ایس آئی لگایا گیا تو ان کا گٹھ جوڑ ہو جائے گا۔
جنرل درانی نے کہا کہ سیاستدانوں میں پایا جانے والا تاثر غلط ہے کہ فوج وفاداریاں کیسے کام کرتی ہیں ہم کسی کے آدمی نہیں ہوتے ہم ملک کا مفاد دیکھتے ہیں۔ جنرل اسد درانی نے کہا کہ ہم کسی کو پسند نا پسند تو کر سکتے ہیں مگر جب ہمارا کام آتا ہے تو ہم صرف اپنے ادارے کے ہوتے ہیں اور یہ بھی ہمارا پلس پوائنٹ ہے مثال کے طور پر میں خلیج کی جنگ میں اسلم بیگ سے متفق نہیں تھا نواز شریف کی افغان پالیسی پر بھی میرا اختلاف ہوا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ افغان لویہ جرگے کے ذریعے ہم سے تو وسیع تر اتفاق پیدا کر رہے ہیں جس میں اقوام متحدہ کو بھی شامل کیا جائے گاکیونکہ پاکستان ایران یا سعودی عرب اکیلے یہ کام نہیں کر سکتے نواز شریف مجھ پر اعتماد نہیں کرتے تھے اس لئے 6 ماہ بعد جب انہیں موقع ملا تو وہ اپنی پسند کا آدمی لے آئے۔