میز پر اخبارات کا پلندہ۔ ۔ پرانی ایش ٹرے میں پڑے درجنوں سگریٹ کے بجھے اور ادھ جلے ٹکڑے۔ ۔ ریفل سے خالی بال پوائنٹ۔ چائے کے ٹوٹے مگوں کے کناروں پر چپکی ہوئی چائے کی پتی۔
پرانی چوں چوں کرتی کرسیاں، کرسیوں سے اترا ہوا ریگزین، ریگزین سے نکلتی ہوئی پرانی روئی اور فوم، دیوار پر لٹکا ہوا دنیا کا نقشہ، میز پر رکھا گلوب، جس پر بنے ملکوں اور بر اعظموں کے ستم رسیدہ علامتی نشان پر جمی ہوئی وقت کی گرد سے پھیکے پڑ جانے والے رنگ، حواس باختہ، پریشان حال، بکھرے بال، چاک گریبان، نیند سے بوجھل آنکھیں، سوجھے ہوئے پپوٹے، چہرے پر ان گنت تفکرات، جلتا سگریٹ اور سگریٹ سے اٹھتا دھواں، ایک ہاتھ ریسیور پر، دوسرا کان کے ساتھ۔ ٹھیک، ٹھیک اور جی ہاں کی گردان اور نظریں اخبار پر۔ یہ ہوتا تھا ایک اخبار کے ایڈیٹر کے کمرے کا نقشہ۔ محلے کے جنرل اسٹور کا مقروض، دفتر میں چائے اور پان کے کھوکے والے کے دیندار۔
پھر الیکٹرانک میڈیا آن وارد ہوا۔ سار ا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ اب ایڈ یٹر ہوا ڈائر یکٹر نیوز یا کنٹرولر نیوز۔
کمرہ ایسا کہ دیکھے رشک آئے، دیواروں پر لگے کئی ایل سی ڈی، قلم کے بجائے ریموٹ کے اشارے سے بدلتے منظر نامے۔ نفیس وال پیپر کمرے میں رکھے چرمی صوفے ایسے کہ بیٹھو تو دھنسنے کا گمان ہو۔
ووڈن فرش، ملگجی روشنیاں، آرام دہ گھومنے والی کر سی، مسحور کن خوشبو، کاپی جیسا لیپ ٹاپ۔ یک ” ٹچ “کھل جا سم سم اور دنیا میرے آگے۔
یہ سب کچھ بدلا تو نیوز روم کے حالت بھی بدلے۔ چوں چوں کرتی کرسیوں کی جگہ ریوالونگ چیئر، خوبصورت ڈیسک، لش پش کرتے کمپیوٹر اور انٹر نیٹ۔ ۔ ۔ انگلیوں کے پوروں پر ایک جہان سمٹ آیا۔
زمانہ بدلتے ہی، ڈھنگ اور رنگ بھی بدلے۔ پرانی موٹر سائیکلوں کی جگہ چمچماتی گاڑیوں نے لے لیں۔ نجی چینلز کی بھر مار، مسابقت کی منڈی میں ریٹنگ کی آس میں ریٹ ریس میں وژن رہا نہ مشن۔ بسا اوقات تو لفظوں کی حرمت بھی بر طرف رکھنا پڑی۔
وہ جن کے منہ سے ابھی ڈبے کے دودھ کی خوشبو آتی ہے، انہیں بھی رہنما لکھا جانے لگا۔
لفظ ” بحران” اس قدر عام ہوا کہ بحران ٹلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
زبا ن و بیان کاخیال نہ رہا۔
مشاہروں کے تضاد کی اپنی تاریخ ہے۔ کیو ں ہے؟ یہ راز ابھی تک راز ہی ہے۔ تاہم
یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ اس ٘ ماحول میں ہم صرف معتبر ہی ٹہرے۔