میں نے کبھی لکھا تھا کہ میری زندگی میں تین بڑے حادثے ہیں، پہلا میری پیدائش کا جس کی تفصیلات کا مجھے کوئی علم نہیں، دوسرا میری شادی کا، تیسرا میرا افسانہ نگار بن جانے کا۔ آخری حادثہ چونکہ ابھی تک چلا جا رہا ہے، اس لیئے اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔وہ لوگ جو میری زندگی کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہتے ہیں، ان کی خاطر میں اپنی شادی کی داستان بیان کرتا ہوں۔ یہ من و عن نہیں ہوگی، کیونکہ بعض واقعات مجھے مصلحتاً گول کرنے پڑیں گے۔میں پہلے اس حادثے کا عقبی منظر پیش کرتا ہوں تاکہ اس کی تفصیلات ابھر آئیں۔ سن مجھے یاد نہیں۔ غالباً بارہ تیرہ برس پہلے جب علی گڑھ یونیورسٹی سے مجھے اس لیئے باہر نکال دیا گیا تھا کہ مجھے دق کا عارضہ لاحق ہے، میں اپنی بہن سے کچھ روپیہ لے کر صحت درست کرنے کی خاطر بٹوت، (جموں اور کشمیر کے درمیان ایک گاؤں) چلا گیا۔ یہاں تین مہینے قیام کرنے کے بعد میں واپس اپنے شہر امرتسر میں آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میری بہن کا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ (وہ بمبئی میں بیاہی ہوئی تھی۔ چند روز امرتسر رہ کر واپس بمبئی چلی گئی تھی)۔یہاں پر میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں والد کے سائے سے محروم تھا۔ بہن کی شادی پر جو جمع پونجی موجود تھی وہ میری سادہ لوح اور نیک دل ماں نے میرے بہنوئی کے حوالے کر دی تھی۔ اب یہ حالت ہو گئی تھی کہ ہم دوسروں کے محتاج تھے۔ میرے دو بڑے بھائی ہمیں چالیس روپیہ ماہوار دیا کرتے تھے۔امرتسر آتے ہی میرا دل و دماغ سخت مضطرب ہو گیا۔ جی چاہتا تھا کہیں بھاگ جاؤں، یا خودکشی کر لوں۔ مضبوط ارادے کا مالک ہوتا تو یقیناً میں نے خود کو ہلاک کر لیا ہوتا۔ اسی لیئے جب بمبئی سے ہفتہ وار مصور کے مالک مسٹر نذیر نے مجھے خط لکھا کہ میں بمبئی آ کر ان کے پرچے کی ادارت سنبھال لوں تو میں نے فوراً بوریا بستر باندھا اور بمبئی چل دیا۔ میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ والدہ امرتسر میں اکیلی رہ جائے گی۔مسٹر نذیر نے مجھے چالیس روپے ماہوار پر نوکر رکھ لیا۔ جب میں ان کے دفتر میں سونے لگا تو انہوں نے کرائے کے طور پر دو روپے تنخواہ میں سے کاٹنا شروع کر دیئے۔ اس کے بعد جب انہوں نے مجھے امپریل فلم کمپنی میں بحیثیت منشی یعنی مکالمہ نگار چالیس روپیہ ماہوار پر ملازم کرا دیا تو میری تنخواہ آدھی یعنی بیس روپے کر دی، جس میں سے دو روپے دفتر کو رہائش کیلئے استعمال کرنے کے سلسلے میں کاٹے جاتے رہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب انتہائی عروج کے بعد امپریل فلم کمپنی روبہ تنزل تھی۔ اس کے مالک سیٹھ آرڈیشر ایرانی جو ایک باہمت آدمی تھے سرتوڑ کوششوں میں مصروف تھے کہ ان کی کمپنی کی حالت سنبھل جائے۔ظاہر ہے کہ ایسی ڈگمگ حالت میں ملازموں کو تنخواہیں وقت پر نہیں ملتی تھیں۔ سٹیو آرڈیشر نے ایک اور ظلم کیا کہ ہندوستان کا پہلا رنگین فلم بنانے کا فخر حاصل کرنے کیلئے باہر سے ’’سنے کلر پروسس‘‘ کی مشینیں منگوا لیں۔ وہ اس سے پیشتر ہندوستان کا سب سے پہلا ناطق فلم ’’عالم آراء‘‘ پیش کرنے کا فخر حاصل کر چکے تھے۔کمپنی پر جب یہ رنگین بوجھ پڑا تو اس کی مالی حالت اور بھی کمزور ہو گئی، مگر جوں توں کام چلتا رہا۔ کچھ نہ کچھ ایڈوانس کے طور پر مل جایا کرتا تھا، باقی حساب میں جمع رہتا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ اس رنگین فلم کی ڈائریکشن مسٹر موتی، بی، گڈوانی کے سپرد ہوئی جو تعلیم یافتہ تھے اور مجھے پسند کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہانی لکھنے کیلئے کہا جو میں نے لکھ دی اور انہوں نے پسند کی، مگر ایک پیچ آن پڑا کہ وہ سیٹھ سے کیسے کہیں کہ پہلی رنگین فلم کی کہانی کا مصنف ایک معمولی منشتی ہے، بہت سوچ بچار کے بعد یہ طے ہوا کہ اچھے دام وصول کرنے کی خاطر کہانی پر کسی شخصیت کا نام دیا جائے۔ایسی کوئی شخصیت، میرے دائرہ احباب میں نہیں تھی، لیکن جب میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو مجھے بہت دور شانتی نکیتنمیں پروفیسر ضیاء الدین (مرحوم) دکھائی دیئے جو ٹیگور کی یونیورسٹی میں طلبا کو فارسی پڑھاتے تھے۔ میں نے ان کو خط لکھا، چونکہ وہ مجھ سے پیار کرتے تھے، اس لیئے وہ ہمارے اس فراڈ میں شریک ہو گئے۔کہانی چنانچہ انہی کے نام سے پیش ہوئی اور بہت بری طرح ناکام رہی۔ کمپنی کی حالت اور بھی ابتر ہو گئی۔ اس دوران میں مسٹر نذیر کی سفارش سے مجھے سو روپے ماہوار پر’ فلم سٹی‘میں ملازمت مل گئی۔ کاردار صاحب کلکتے سے بمبے آئے تو ’فلم سٹی‘ نے ایک فلم کیلئے ان سے معاہدہ کیا۔ کہانیاں طلب کی گئیں۔ ان میں ایک میری بھی تھی جو میاں کاردار نے پسند کی اور اس پر کام بھی شروع کر دیا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔سیٹھ آرڈیشر کو پتہ چل گیا کہ میں ’فلم سٹی‘ میں ہوں، گو ان کی وہ پہلی سی ساکھ نہیں تھی، لیکن اپنے تمام ہم عمر پروڈیوسروں پر ان کا رعب اور دبدبا ویسے کا ویسا قائم تھا۔ ’فلم سٹی‘ کے مالکوں کو انہوں نے کچھ ایسی ڈانٹ پلائی کہ مجھے کان سے پکڑ کر واپس امپریل فلم کمپنی میں بھیج دیا گیا اور ساتھ ہی میری کہانی بھی۔اب میری تنخواہ چالیس کے بجائے اسی کر دی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ مجھے میری کہانی کا معاوضہ علیحدہ ملے گا۔ اس کہانی کی ڈائریکشن حافظ جی (رتن بائی والے) کے سپرد کی گئی۔جب میں ’فلم سٹی‘ میں ملازم ہوا تھا تو میں نے ’مصور‘ کے دفتر میں رہائش چھوڑ کر پاس ہی ایک نہایت ہی غلیظ چالی (بلڈنگ) میں ایک کھولی (کمرہ) نو روپے ماہوار پر لے لی تھی۔ اس میں اس قدر کٹھمل تھے کہ چھت پر سے بارش کے قطروں کی طرح گرتے تھے۔اس دوران میں میری والدہ بمبے آ گئی تھی اور اپنی لڑکی کے پاس قیام پذیر تھیں۔ جب پہلی مرتبہ وہ مجھ سے ملنے کیلئے اس غلیظ کھولی میں آئیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔میرے اور میرے بہنوئی کے تعلقات کشیدہ تھے۔ اب اسے خدا بخشے مگر اس کا کردار بہت ہی خراب تھا۔ میں چونکہ نکتہ چینی کرتا تھا، اس لیئے اس نے اپنے گھر میں میرا داخلہ بند کر دیا تھا اور میری بہن پر یہ پابندی عائد کر دی گئی تھی کہ وہ مجھ سے نہیں مل سکتی۔میں اپنی ماں کے آنسوؤں کا ذکر کر رہا تھا جو اس لیئے ان کی آنکھوں سے نکلے تھے کہ ان کا بیٹا جو نازو نعم میں پلا تھا اب زمانے کی گردش سے ایسی غلیظ جگہ میں رہتا ہے۔ اس کے پاس کپڑے نہیں۔ رات مٹی کے تیل کا لیمپ جلا کر کام کرتا ہے۔ ہوٹل میں روٹی کھاتا ہے۔وہ جب تک روتی ر ہی، میں شدید قسم کی دماغی اور روحانی اذیت میں مبتلا رہا جو دن گزر چکے ہیں، ان کی یاد میرے نزدیک ہمیشہ فضول رہی ہے اور پھر رونے دھونے کا کیا مطلب ہے۔ مجھے ہمیشہ ’’آج ‘‘ سے غرض رہی ہے۔ گزری ہوئی کل یا آنے والی کل کے متعلق میں نے کبھی نہیں سوچا۔ جو ہونا تھا ہو گیا، جو ہونے والا ہے ہو جائے گا۔رونے سے فارغ ہو کر میری والدہ نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا ’’سعادت تم زیادہ کیوں نہیں کماتے‘‘۔ میں نے جواب دیا۔ ’’بی بی جان، زیادہ کما کر کیا کروں گا۔ جو کچھ کما رہا ہوں میرے لئے کافی ہے۔‘‘ انہوں نے مجھے طعنہ دیا۔ ’’نہیں، بات اصل میں یہ ہے کہ تم زیادہ کما نہیں سکتے ۔۔۔۔۔۔ زیادہ پڑھے لکھے ہوتے تو الگ بات تھی۔‘‘بات درست تھی، لیکن میرا پڑھنے میں جی ہی نہیں لگتا تھا۔ تین بار انٹرنس میں فیل ہونے کے بعد جب کالج میں داخل ہوا تو میری آوارگی اور بھی بڑھ گئی اور ایف اے کے امتحان میں دو مرتبہ ناکام رہا۔ علی گڑھ گیا تو وہاں سے اس بناء پر نکالا گیا کہ مجھے دق کا عارضہ لاحق ہے۔ان تلخ حقائق کو محسوس کرنے کے باوجود میں نے بات کو ہنسی مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی ’’بی بی جان، میں جو کچھ کماتا ہوں، میری ذات کیلئے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔ گھر میں بیوی ہوتی تو پھر آپ دیکھتیں، میں کیسے کماتا ہوں۔ کمانا کوئی مشکل کام نہیں۔ آدمی اعلیٰ تعلیم کے بغیر بھی ڈھیروں روپیہ حاصل کر سکتا ہے۔‘‘یہ سن کر والدہ نے اچانک مجھ سے یہ سوال کیا۔ شادی کرو گے۔‘‘ میں نے ایسے ہی کہہ دیا ’’ہاں ۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں!‘‘م’’تو اس اتوار کو تم، ماہم، آؤ، فٹ پاتھ پر کھڑے رہنا۔ میں تمہیں دیکھ کر نیچے آ جاؤں گی‘‘ والدہ نے یہ کہہ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ’’تمہاری شادی کا بندوبست ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔ انشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔ لیکن دیکھو، اپنے بال کٹوا کے آنا ۔۔۔۔۔۔‘‘میں نے بال نہ کٹوائے۔ رات کو میں نے اپنے کینوس شو پر پالش کر دیا تھا۔ ڈبل ریٹ پر دھلوائی ہوئی سفید پتلون پہن کر میں اتوار کی صبح کو ’ماہم‘ میں ’’ایننگ لیٹومینشنز‘‘ کے پاس فٹ پاتھ پر کھڑا تھا۔ والدہ تیسری منزل کے فلیٹ کی بالکنی پر میری منتظر تھیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو نیچے آئیں اور مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔ بیس پچیس گز کے فاصلے پر ایک بلڈنگ تھی ۔۔۔۔۔۔ ’جعفر ہاؤس‘ ۔۔۔۔۔۔ والدہ نے اس کی دوسری منزل کے ایک فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جو نوکرانی نے کھولا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔والدہ زنانے میں چلی گئیں۔ میرا استقبال ایک گورے چٹے ادھیڑ عمر کے آدمی نے کیا۔ مردانے میں بڑی محبت اور بڑے خلوص کے ساتھ بٹھایا اور فوراً بے تکلف ہو گئے۔ آپ نے مجھ سے اور میں نے ان سے ایک دوسرے کے مشاغل کے متعلق معلومات حاصل کیں۔وہ گورنمنٹ کے ملازم تھے۔ پولیس کے محکمے میں ’’فنگر پرنٹ اسپیشلسٹ‘‘ تنخواہ واجبی تھی۔ کئی بچوں کے باپ تھے۔ ریس اور فلش کے رسیا، کراس ورڈ پزلز بڑی باقاعدگی سے حل کرتے تھے، مگر کوئی انعام حاصل نہیں کر سکتے تھے۔میں نے ان کو اپنے سارے حالات بتا دیئے۔ یہ بھی کہہ دیا کہ ایسی فلم کمپنی میں ملازم ہوں جہاں تنخواہ نہیں ملتی، صرف سانس کی آمدورفت جاری رکھنے کے لیئے کبھی کبھی ایڈوانس کے طور کچھ مل جاتا ہے۔مجھے تعجب ہے کہ میں نے جب ان کو یہ بتایا کہ ایسی پتلی حالت میں بھی ہر شام کو بیئر کی ایک بوتل ضرور پیتا ہوں تو انہوں نے برا نہ مانا۔ میری ہر بات کو انہوں نے بڑے غور سے سنا۔ جب میں جانے کیلئے اٹھا تو ملک حسن صاحب، میری کتاب زندگی کے تمام ضروری اوراق کا مطالعہ کر چکے تھے۔جب ہم وہاں سے نکلے تو والدہ نے مجھے بتایا کہ یہ لوگ افریقہ سے آئے ہیں، تمہارے بھائیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں (انہوں نے دس بارہ برس مشرقی افریقہ میں بیرسٹری کی تھی) ان کے ہاں ایک لڑکی ہے، جس کا بیاہ کرنا چاہتے ہیں۔ کئی رشتے آ چکے ہیں، مگر ان کو پسند نہیں آئے۔ اصل میں کوئی کشمیری گھرانہ چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ان سے تمہاری بات کی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی۔رہی سہی جو کسر رہ گئی تھی وہ والدہ نے پوری کر دی تھی، لیکن میں سوچنے لگا کہ یہ سلسلہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اگر وہ لوگ مان گئے (حالانکہ مجھے اس کا یقین نہیں تھا، اس لیئے کہ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ وہ مجھے اپنی لڑکی دیتے) تو کیا سچ مچ مجھے شادی کرنا پڑے گی اور ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ڈھیروں روپے بھی کمانا پڑیں گے؟ملک صاحب نے مجھے دوسرے اتوار کو کھانے پر مدعو کیا تھا میں حسب وعدہ وہاں پہنچا تو انہوں نے میری بڑی آؤ بھگت کی۔ کھانا آیا۔ مرغ تھا، کوفتے تھے، ساگ کا سالن بھی تھا اور دھنیئے پودینے اور انار دانے کی چٹنی، ہر چیز لذیذ تھی، لیکن گرم مصالحہ اور مرچیں اس قدر کہ الامان۔ میرے پسینے چھوٹ گئے، لیکن رفتہ رفتہ میں عادی ہو گیا۔دو تین اتواروں کے بعد میں جب ان لوگوں میں گھل مل گیا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے میرا رشتہ قبول کر لیا ہے۔ جب میں نے یہ سنا تو چکرا گیا۔ میں تو شادی کے اس قصے کو صرف ایک مذاق سمجھ رہا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے قطعاً یقین نہیں تھا کہ مجھے کوئی ہوش مند انسان اپنی لڑکی دے گا۔ میرے پاس تھا ہی کیا۔ انٹرنس پاس، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں۔ ملازمت ایسی جگہ جہاں تنخواہ کے بجائے ایڈوانس ملتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور پیشہ فلم اور اخبار نویسی۔ ایسے لوگوں کو شریف آدمی کب منہ لگاتے تھے۔ایک غلیظ کھولی حاصل کرنے کیلئے