لاہور ; جب ساغر سڑکوں پر رھنے پر مجبور ھوگیا، تو اس نے مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا- جس فقیرانہ حال میں وہ رھتا تھا، اس حال میں مشاعروں میں کیسے جاتا-؟ لیکن اس نے شعرکہنا ترک نہ کیا- وہ ادبی رسالوں کو اپنا کلام دے کر کچھ پیسے کما لیتا تھا-
سڑک پہ رھنے والے کا خرچا ھی کیا ھوتا ھے- ساغر کے لیے سگریٹ کے ایک دو پیکٹ اور چائے کے ایک دو کپ ھی کافی تھے- کھاتا بہت کم تھا- کبھی بھوک ستاتی تو داتا صاحب کے لنگر پہ لائین میں لگ کر کچھ نہ کچھ کھا لیتا تھا-تنہائی اور بے قدری کے غم کا علاج نشے سے کرنے لگا تو نشے کا خرچ پورا کرنے کے لیے اپنا کلام بیچنا شروع کردیا- فضول قسم کے شاعر اپنی بکواس شاعری کی بجائے دس پندرہ روپے میں ساغر کی غزل خرید کر مشاعروں میں داد وصول کرنے لگے- کروڑپتی فلم ساز ساغر سے فلم کے گیت لکھواکر چند روپے اس کے ھاتھ پہ رکھ دیتے – کسی کے دل میں اتنا خوف خدا پیدا نہ ھؤا کہ اس کا علاج کراکے، اس کے لیے مستقل روزگار کا بندوبست کردے-ساغر کبھی لہر میں ھوتا تو فٹ پاتھ پر موم بتی کی روشنی میں مشاعرہ سجا لیتا، مشاعرے کا اکلوتا شاعر وہ خود ھوتا- آواز میں بہت درد بھرا ترنم تھا- سننے والے جھومتے رھتے- مگر جیب سے کچھ نکال کر نہ دیتے- ساغر کی موت کے بارے میں مختلف روایات سننے میں آتی ھیں- زیادہ قرین قیاس یہ ھے-شے کے لیے ساغر خود کو کوکین کے انجیکشن لگایا کرتا تھا- ایک دن پیسے نہ تھے، نشے کی طلب نے بے تاب کر دیا تو چائے کا قہوہ سرنج میں بھر کر اپنی کلائی کی رگ میں چڑھا دیا اور چند منٹوں میں انکی موت واقع ہو گئی یوں پاکستان ایک نابغہ روزگار شاعر سے محروم ہو گیا