لاہور (ویب ڈیسک) موت ایک ابدی حقیقت ہے جس سے انکار کسی ذی روح کے حوالے سے ممکن ہی نہیں اس کے باوجود بعض اموات اتنی اچانک ظہور پذیر ہوتی ہیں کہ مرحومین کے جنازوں کو کاندھا دینے کے دوران بھی یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اب نہیں رہے ۔ نامور کالم نگار امجد اسلام امجد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔شہر میں نہ ہونے کی وجہ سے میں عبدالقادر کے جنازے میں تو شامل نہ ہو سکا مگر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حضرت میاں میرؒ کے مزار کے قریب سے گزرتے ہوئے اب بھی وہ اپنی مخصوص خوبصورت اور محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہیں نہ کہیں موجود ہو گا کہ تقریباً 45 برس پر بکھری ہوئی اُس سے بیشتر ملاقاتیں اسی نواح میں ہوئی ہیں ۔ اُس سے آخری بالمشافہ ملاقات چند ماہ قبل علیم ڈار کرکٹ اکیڈمی میں نابیناکھلاڑیوں سے متعلق ایک خصوصی تقریب میں ہوئی تھی جہاں ہم دونوں کو بطور مہمان مدعو کیا گیا تھا۔ حاضرین کی سیلفیوں اور منتظمین کی فرمائشوں سے جتنا وقت بھی مل سکا ہم نے اُن پرانی یادوں کے درمیان گزارا جن کا آغاز کھیل کے میدانوں سے ہوا کہ اُس وقت میں اپنے مختصر اور معمولی کرکٹ کیریئر کے آخری مراحل میں تھا اور وہ ایک شاندار اور بے مثال کھلاڑی بننے کے آغاز میں تھا۔ کرکٹ سے اپنی فطری وابستگی کے باعث اس کھیل سے میری دلچسپی آج بھی قائم ہے اور یوں میں نے عبدالقادر کے پورے کیریئر کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اس دوران میں اُ س سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی کبھی کم اور کبھی زیادہ مگر مسلسل قائم رہا ہے۔ وہ ایک سادہ مزاج، کُھلا ڈُلا اور محبتی انسان تھا۔ کھیل کے علاوہ اخلاقیات، نماز روزے اور شعر و ادب سے بھی گہری دلچسپی رکھتا تھا اور اُن لوگوں میں سے تھا جو اپنی رائے کے اظہار میں ’’سچائی‘‘ کو سب سے اوپر کے درجے پر رکھتے ہیں۔ بے تکلفانہ سچ بولنے کی اسی عادت کی وجہ سے پاکستانی کرکٹ کے نمایاں ترین کھلاڑیوں میں سے ہونے کے باوجود اُسے کرکٹ بورڈ، میڈیا اور اہلِ منصب کے ساتھ ڈیلنگ میں زندگی بھر کچھ ایسے مسائل درپیش رہے کہ اُسے اُس کے ٹیلنٹ اور کارکردگی کے مقابلے میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کا وہ صحیح معنوں میں حقدار تھا۔ اس کا زیادہ، ناخوشگوار، اثر اُس کے بیٹوں کے کرکٹ کیریئر پر پڑا کہ ان بچوں کو باصلاحیت ہونے کے باوجود آگے بڑھنے کے وہ مواقعے نہ مل سکے جو ان کا حق بنتے تھے اور ان کے ساتھ کم و بیش وہی سلوک ہوا جو جاوید میانداد کے بھانجے فیصل اقبال کو برداشت کرنا پڑا کہ بدقسمتی سے ہمارے بہت سے کھلاڑی جو آگے چل کر انتظامی عہدوں پر فائز ہوئے وہ اپنے ذاتی اختلافات کا غصہ اسی طرح کے منفی حربوں سے نکالتے رہتے ہیں۔ یہ بات اس لیے درمیان میں آگئی کہ یہ رویہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے اور دیکھا جائے تو عالمی رینکنگ میں پاکستان کی تنزلی اور کھلاڑیوں کی معمولی پرفارمنس کے کچھ ڈانڈے اس سے بھی جا ملتے ہیں۔عبدالقادر ہر اعتبار سے ایک غیر معمولی طور پر کامیاب سیلف میڈ انسان تھا۔ اُس نے عوامی گلوکار عطا اللہ عیسی خیلوی کی طرح میری نظم ’’سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘‘ اپنے دفتر میں تو نہیں لگا رکھی تھی مگر وہ اسے پسند بہت کرتا تھا اور اکثر کہا کرتا تھا کہ یہ مجھے اپنی ہی کہانی لگتی ہے۔ اب اُس کے جانے کے بعد مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کہ شائد اگر اس ’’سیلف میڈ انسان ‘‘ کی کوئی تصویر بنائی جاتی تو اس کے بیشتر نقش عبدالقادر کے چہرے اور کردار ہی کا عکس ہوتے۔ روشن مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے ۔۔ زندگی کے رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو ۔۔ راہ سے ہٹانے میں ۔۔ ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے ہیں ۔۔ خوشبوئیں پکڑنے میں ، گلستاں سجانے میں ۔۔ عمر کاٹ دیتے ہیں ۔۔ عمر کاٹ دیتے ہیں اور اپنے حصے کے ۔۔ پھول بانٹ دیتے ہیں ۔۔ وہ ایک بہت غریب گھرانے میں پیدا ہوا اور میری معلومات کے مطابق اس کے والدکسی چھوٹی سی مسجد کے امام تھے اُس کے پاس کھیل کا لباس اور جوتے تک خریدنے کی استطاعت نہ تھی لیکن ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود نہ صرف اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی بلکہ کھیل کے میدان میں بھی ایسی غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا کہ چند ہی برسوں میں نہ صرف پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنا لی بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے لیگ بریک اور گگلی باؤلر کے حوالے سے اپنے دور کا سب سے کامیاب اور خطرناک باؤلر سمجھا جانے لگا۔ اور اس فن میں ایسی مہارت حاصل کی کہ ٹیسٹ ہسٹری کا سب سے کامیاب لیگ اسپنر شین وارن اس فن میں اس کو اپنا استاد مانتا ہے۔ تیرہ چودہ برس کے کیریئر میں اسے صرف 67 ٹیسٹ مل سکے کہ اُس کے زمانے میں ہماری کرکٹ ٹیم کی رسائی بس یہیں تک تھی اس سے پہلے انتخاب عالم اور مشتاق احمد اور بعد میں یاسر شاہ نے لیگ اسپن بالنگ میں خاصا نام کمایا مگر اس حوالے سے جو پہلا نام ذہن میں آتا ہے اوہ صرف اور صرف عبدالقادر ہی ہے۔ آخری ملاقات میں میں نے اس سے اس کے گھر آنے اور اپنا تازہ شعری مجوعہ ’’زندگی کے میلے میں‘‘ ساتھ لانے کا وعدہ کیا تھا مگر اب سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔ سوچتا ہوں کہ اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد اس کے گھر جاؤں اور بچوں سے ملنے کے بعد کسی کو بتائے بغیر وہ کتاب اُس کے کمرے میں کہیں رکھ آؤں۔ دل کہتا ہے کہ اس کو کسی نہ کسی طرح اس کی خبر ہو جائے گی اور وہ دل ہی دل میں اُسی طرح مجھے جپھا مار کر وہ محبت بھرا قہقہہ لگائے گا جو اس کا ایک طرح سے ٹریڈ مارک بن چکا تھا۔ دن رات کے آنے جانے میں ۔۔ دنیا کے مسافر خانے میں ۔۔ کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں ۔۔ کبھی منظر صاف نہیں ہوتے۔۔ـ