لاہور (ویب ڈیسک) اس بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں پورا پورا غسل ہورہا تھا۔ سرکاری خرچ پہ یہ موج میلہ کچھ اس طرح جاری تھا کہ شاید کبھی پکڑے ہی نہیں جانا یا انہیں پکڑے جانے کا کوئی خوف نہ ہو۔ اسے بدقسمتی کہا جائے یا کچھ اور کہ پاناما کا جن بوتل سے باہر نکل آیا۔ نامور کالم نگار محمد اسلم خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اب تک کی ناکامیوں پر بھنائی بیٹھی مقتدر قوتوں کو پاناما کی صورت میں ایک اچھا موقع میسرآگیا جس سے نوازشریف اور زرداری صاحب دونوں سے نمٹا جاسکتا تھا۔ نوازشریف اور انکی حکومت کی پے درپے غلطیوں نے خود کو، اپنی حکومت اور خاندان کوپاناما کے منجھدھار میں لاڈبویا۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت نے رہی سہی کسر بھی برابر کردی اور ان کی حکومت کا کام تمام ہوگیا۔ نوازشریف تاریخ کا قصہ پارینہ بن رہاتھا تو دوسری جانب زرداری صاحب اس سارے عمل سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ وہ ایک بارپھر بچ گئے یا انہیں کچھ نہیں کہا جائیگا۔ لیکن منصوبہ سازوں کے ذہن میں کچھ اور تھا۔ وہ بڑی مچھلی کے شکار کے انتظار میں تھے۔ نوازشریف کی رخصتی کے ساتھ ہی اگلا نمبر زرداری صاحب تھے۔ برس ہا برس کے شواہد اور دستاویزات بروئے کار آنے لگیں جو پہلے سے سرد خانوں میں موجودتھیں۔ عدالت عظمی کو معلوم ہوا کہ اس کیس میں جعلی کھاتوں میں تحقیق سے زرداری سمیت دیگر بہت سارے افراد کا ایک پورا لنڈا بازار موجود ہے تو عدالت نے تحقیقات کو وسیع کردیا اور اس میں آئی ایس آئی اور دیگر پیشہ وارانہ ماہرین کو شامل کردیا۔ یہ وہ تاریخی موقع تھا جس کا انتظار شاید برسوں سے کیاجارہا تھا۔ شواہد خام حالت میں ان کے پاس پہلے سے موجود تھے جو زرداری صاحب نے کبھی عدالت میں پیش نہیں ہونے دیئے تھے۔جلد ہی جے آئی ٹی کی رسائی اس تمام ریکارڈ تک ہوگئی اور انہوں نے ان تمام معاملات کے سرے پکڑ لئے اور پورا نقشہ واضح ہوکر سامنے آنے لگا۔ عزیر بلوچ، انور مجید، ڈاکٹر عاصم حسین، حسین لوائی اور دیگر گواہاں بھی میسرآچکے تھے۔ بہت بڑی تعداد میں دستیاب حقائق کے سرے جب جوڑے جانے لگے تو منظرواضح ہونے لگا، پہیلی سلجھنے لگی اور حقائق کھل کر اور نکھر کر سامنے آنے لگے۔اسی لئے جے آئی ٹی کو جس مواد کی ضرورت تھی وہ انہیں شوشے اور کامے سمیت میسرآگیا۔ 26جلدوں پر مبنی جے آئی ٹی کی رپورٹ جب سپریم کورٹ میں پیش ہوئی تو یہ ایک حیرت انگیز کارنامہ تھی۔ زرداری صاحب کی توقعات کے برعکس یہ صورتحال ایسا بم ثابت ہوئی جس نے ان کے منصوبے کو ’پرزے پرزے ‘ کردیا۔ مشیروں، وکیلوں اور قانونی دماغوں نے انہیں تسلی دی کہ نوازشریف کی طرح انہیں بھی وقت مل جائے گا۔ پیپلپزپارٹی نے اجتماعی ماتم و سیاسی نوحہ گری کا آغاز اسی وقت شروع کردیا اور تمام قیادت طوطے کی طرح بولنے لگی لیکن افسوس کہ پی پی پی قیادت کے پاس اس وقت کوئی اور راستہ نہ بچا۔ اپنی قیادت کے ہاتھوں یرغمال رہنمائوں نے عمران خان کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ حالانکہ اس سارے مسئلہ میں عمران خان کا اگرچہ کچھ لینا دینا نہیں تھا لیکن عمران خان پر حملہ کرادیاگیا۔ زرداری صاحب کو ایک ایسی سیاسی آڑ، نشانہ چاہئے تھا جسے وہ اپنی چاندماری کے لئے استعمال کرسکیں کیونکہ براہ راست فوج اور عدلیہ کو وہ نشانہ نہیں بناسکتے۔ تین سال قبل وہ یہ مہارت دکھا چکے تھے اور پھر بیرون ملک آرام سے زندگی بسر کرتے رہے۔پیپلزپارٹی کی عمران خان کے خلاف جنگ کو خود پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی ایک اچھا موقع جانا اور اسے اپنی خراب کارکردگی پر اٹھنے والے تنقیدی طوفان کا رْخ پھیرنے کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔