“فدائی حملہ” جسے عُرفِ عام میں “خودکُش حملہ” کہا جاتا ہے، پاکستان میں تقریباً ہر بندہ اس اصطلاح اور کیفیت سے واقف ہوگا، پاکستان میں خود کش حملوں کی شہرت حکیم اللہ محسود کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت سنبھالنے کے بعد ہوئی، انہی حملوں میں ہزاروں بے گناہ پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان حملوں میں بیشتر نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے لڑکے تھے، پاکستان نے جس مشکل اور طویل صبر آزمائی کے بعد ان حملوں سے جزوی چھٹکارا پایا، اس کے پیچھے 70 ہزار عوامی اور 10 ہزار فوجی و دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کے لاشے ہیں، خودکش حملوں کے حوالے سے میں ہمیشہ ایک بات کا قائل نہیں رہا ، کہ جب کہا جاتا ہے کہ پیسوں کیلئے حملہ کیا، یہ بات نہ میں پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں کے بارے تسلیم کرتا ہوں، نہ دنیا کے کسی اور کونے میں ہونے والے حملے کی، فرض کیجئے آپ کو ایک بندہ کروڑوں روپے آفر کرے،اور ٹاسک یہ دیا جائے کہ آپ نے خودکش حملہ کرنا ہے، یعنی اپنے جسم سے بم باندھنا ہے، اور اپنے ساتھ درجنوں دیگر بے گناہوں کو بھی صفحہِ ہستی سے مٹانا ہے، فرض کیجئے کہ آپ کو ان پیسوں کی شدید ضرورت یا پھر لالچ ہے، لیکن جب آپ کو معلوم ہے کہ ان پیسوں کے حصول کے بدلے آپ نے اپنی جان کو خاک و خون میں ملا دینا ہے، اور جسم تک نہیں بچنا، تو کیا آپ یہ آفر قبول کریں گے ؟ کبھی نہیں، کسی قیمت پر نہیں، کیونکہ جب جان نہیں تو پیسوں پر آپ نے کیا تھوکنا۔۔۔؟؟اب آئیے جانب اس بات کے، کہ کوئی 16 سے 20 سال کا لڑکا خودکش حملہ آور کیسے بنتا ہے ؟ کیا اُسے جنت جانے کی اتنی عجلت ہوتی ہے ؟ کیا وہ عمر بھر اللہ کے راستے میں جہاد سے ایمانی حرارت زندہ رکھنے کی بجائے شارٹ کٹ چاہتا ہے ؟ ہر گز نہیں، یہ جذبات تو مسلمانوں کے لیے ہیں، آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھئے دنیا میں خود کش حملوں میں کرد خواتین بھی نظر آئیں گی، جو کہ لادین ہیں، اسی طرح کئی لادین، یا اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے جنگجو خودکش حملے کرتے نظر آتے ہیں، تو غور اس بات پر کرنا چاہیئے کہ آخر کار ایک خودکش حملہ آور کی نفسیات اسے اس آخری حد تک کیوں لے آتی ہے ؟ میرا ناقص خیال یہ ہے کہ کسی بھی خود کش آور کیلئے جذبہِ انتقام کا عروج سب سے پہلا محرک جذبہ ہے، جو اُسے دشمن کے پرخچے اڑانے اور ملیا میٹ کرنے پر اُبھارتا ہے، دوسرا یہ کہ ظلم کا بے حد ستایا ہوا شخص ہوگا،پاکستان میں خودکش حملے کرنے والے کئی نوجوان قبائلی تھے، اور اکثر وہ تھے، جن کا پورا گھرانہ ڈرون حملوں یا ملٹری آپریشن میں تباہ ہوگیا، بہن بھائی،والدین اندھی گولی کا نشانہ بنے، پھر انہوں نے اس اس موت کو گلے لگالیا، جس میں درجنوں دیگر کو موت نگل لے، تیسرا یہ کہ نوجوان خون ہوتا ہے، شادی شدہ اور بال بچے دار ہو تو کئی بار ایسی موت کے پیچھے بیوی بچوں کا خیال آنا ایک فطری امر ہے، اور انسانی کمزوری بھی، تاہم سرپھرے نوجوان کیلئے یہ فکر نہیں ہوتی، میرا چوتھا نکتہ یہ کہ ایسا حملہ آور اپنے نظریات میں اس قدر پختہ اور راسخ ہوتا ہے کہ اُسے اپنی جان کے بکھرے ٹکڑوں اور خاک میں مل جانے والے لاشے کا تصور آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی خوف نہیں آتا، اور آخر کار وہ اپنی جان اپنے اس کاز، نظرئیے اور مشن پر قربان کرتا ہے کہ جس کے بعد اس کے ٹکڑے چن چن کر بھی لاش پوری نہ ہوسکے۔سب سے اہم بات یہ رہ جاتی ہے کہ آیا ایسا حملہ درست ہے یا نہیں ؟ تو بحیثیت مسلمان ہم شریعت کے تابع ہیں، اور بیشتر علماء اسے ناجائز کہتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہرطبقہ اپنے ملک یا علاقے میں ناجائز جبکہ یہی حملہ دوسری جگہ درست قرار دیتا ہے، مثال کے طور پر افغان علماء افغانستان میں اتحادی فورسز پر ہونے والے خودکش حملوں جنہیں طالبان فریڈم فائٹرز فدائی کہتے ہیں کو ناجائز کہتے ہیں، جبکہ پاکستانی علماء افغان طالبان کے تمام حملوں، بشمول فدائی کی تائید کرتے ہیں، مگر پاکستان میں کیے گئے خودکش حملوں کیخلاف متفقہ فتویٰ موجود ہے، جس پر ہر مکتب و مسلک کے نمائندوں کا اتفاق ہے، تاہم پاکستان میں حملوں میں شامل تنظیمات نے ان حملوں کیلئے مختلف دلائل پیش کیے، تاہم ایک عام فہم اور واضح بات یہ ہےکہ جن حملوں کا ہدف عامۃ المسلمین یا بے گناہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، اسے کسی بھی طور پر جواز نہیں دیا جاسکتا۔رہی بات غیر مسلم افواج پر فدائی حملے کی، تو اس میں حملے دوران خودکشی کے تناظر میں حرام قرار دینے والی بات بحیثیت مسلمان تسلیم کرنے میں دو رائے ہے، جیسے کہ گزشتہ روز 14 فروری 2019 کو پلوامہ جموں کشمیر میں مجاہد علی احمد ڈار نے بھارتی ناپاک فوج پر کیا، تو اسے ناجائز اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ایک تو علی ڈار کا ہدف براہ راست کافر دشمن تھا، دوم یہ کہ علی ڈار خود اُن کا ستایا ہوا تھا، سوم یہ کہ علی ڈار کو معلوم تھا کہ اس کے حملے کیلئے یہی حکمت عملی ہوسکتی ہے، کیونکہ اس کا دشمن اس کے خلاف راکٹ لانچر، ہیلی کاپٹر، جیٹ طیارہ اور یہاں تک کہ ایٹم بم کی طاقت رکھتا ہے، اس لیے علی ڈار جیسے فدائی کیلئے اپنا حتمی ہتھیار استعمال کرنے کا آپشن ہی بچتا ہے،اس کا جواز خود صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بھی یُوں ہے کہ کئی صحابہ میدانِ جہاد میں اپنی بہادریوں کے جوہر مختلف انداز میں دکھاتے تھے، مثلاً سیدالشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سینے پر پَر سجا کر لڑا کرتے تھے، بعض صحابہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ دلیری میں اپنی قمیض اتار کر تلواروں اور نیزوں سے لدے ہوئے لشکر، کفار کی صفوں میں گھس کر ان پر بپھرے شیر کی طرح وار کرتے، یہ وہ کیفیت ہے جو خود کو موت کے حوالے کرنے کے مترادف ہے، یعنی منظرنامہ آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے کہ کفار کے مجمع پر ٹوٹ پڑنا، اور تن تنہا پورے لشکر سے مقابلہ کرنا، متعد جنگیں ایسی بھی ہوئیں کہ مسلمان مجاہدوں کو تیر و تلوار کے اتنے وار ہوئے کہ لاشے پہچانے نہ گئے، مسخ کیے گئے، قیمہ ہوگئے، یہ سب کچھ دشمنوں پر کڑا سے کڑا وار کرنے اور اپنی جراتِ ایمانی کا ثبوت دینے کیلئے ارادتا!ً کیا گیا، بالکل سی طرح فدائی حملہ آور بھی یہی حکمت عملی رکھتا ہے،اور فدائی وہ واحد ہتھیار ہے، جس کا توڑ آج تک جدید ٹیکنالوجی بھی سرتوڑ کوششوں کے باجود نہ کرسکی، کیونکہ خودکش بمبار یا فدائی مجاہد وہ ایٹم بم ہے، جو دیکھتا بھی ہے، محسوس بھی کرتا ہے، سنتا بھی ہے، بولتا بھی ہے، اور چلتا پھرتا ہے، یعنی وہ بم ایک انسان ہے، اس لیے کسی بھی جگہ کسی بھی وقت اس کا ہدف ٹھکانے لگ سکتا ہے، اس لیے وہ اپنا حتمی وار فدائی کارروائی کو سمجھتا ہے، اور کر گزرتا ہے، علی ڈرا جیسے نوجوانوں کو خود کش بمبار یا فدائی مجاہد بنانے میں سب سے اہم کردار ظلم کا ہے، جب تک کوئی طاقت محکوموں اور مظلوموں پر ایسے مظالم ڈھائے گی، اُسے کوئی نہ کوئی علی ڈار ضرور ٹکرائے گا