سلمان کو صبح سے دست آ رہے تھے، اس کی امی آمنہ بہت پریشان تھی۔ وہ گھر پر اکیلی تھی ،ان کا گھر شہر سے ذرا فاصلے پر تھا لہٰذا تنہا سلمان کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ممکن نہ تھا۔ آمنہ کا یہ پہلا بچہ تھا ، اسے کچھ پتا نہ تھا کہ سلمان کے لیے کیا ترکیب آزمائی جائے۔ آخر آمنہ نے ہمت کر کے اپنی ہمسائی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے اپنی ہمسائی کو تمام صورت حال بتائی تو اس نے آمنہ کو اپنے گھر بٹھایا، دلاسا دیا، فوراً باورچی خانے گئی، انڈے کی سفیدی پانی میں پھینٹ کر لائی اور سلمان کو پلائی۔ شام تک اس کی حالت کافی سنبھل گئی اور دست آنا کم ہو گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس قسم کے ٹوٹکے وقتی علاج میں خاصے اکسیر ثابت ہوتے ہیں۔ آمنہ کو اس روز انڈے کی اصل افادیت کا اندازہ پہلی بار ہوا۔ وہ سوچنے لگی کہ ہم روزانہ انڈا غذا میں استعمال کر تے ہیں اور یہ تقریباً ہر گھرمیں موجود ہوتا ہے مگر اسے کھانے کے علاوہ دیگر ضروریات میں بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ انڈا اپنے ذائقے اور افادیت کے باعث باورچی خانے میں اپنی مستقل جگہ بنا چکا ہے۔ صبح ناشتے میں ہر کوئی مزیدار آملیٹ، تلے ہوئے یا ابلے ہوئے انڈے کی فرمائش کرتا ہے۔ کسی کو انڈا لگے میٹھے توس پسند ہوتے ہیں۔ کوئی میٹھا آملیٹ پسند کرتا ہے اور کوئی انڈے کا حلوا کھانا چاہتا ہے۔ ناشتے کے علاوہ انڈا دوپہر اور رات کو کھانے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے خصوصاً اس وقت جب گھر میں کچھ پکا ہوا نہ ہو۔ کسی کو کھانا پکانا آئے یا نہ آئے انڈا ابالنا اور کھانا ضرور آتا ہے۔ خاص طور پر بیکری کی مزیدار اشیا مثلاً کیک، بسکٹ وغیرہ کی تیاری میں انڈا ایک اہم جزو ہے۔ انڈے کی زردی اور سفیدی دونوں غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں۔انڈے کا 58 فیصد حصہ سفیدی پر مشتمل ہے۔ اس میں 87 فیصد پانی اور 12 فیصد پروٹین ہوتی ہے۔ زردی 32 فیصد حصے پر مشتمل ہے، اس میں 49 فیصد پانی، 32 فیصد چکنائی اور 17 فیصد پروٹین ہوتی ہے۔ انڈے کا خول تک کیلشیم کاربونیٹ کا خزانہ ہے، اس لیے اسے مرغیوں کی خوراک بنانے کے علاوہ ادویہ کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں عمارتوں کی تعمیر میں اسے پیس کر استعمال کیا جاتا تھا تاکہ دیواریں مضبوط بنیں۔ انڈے میں موجود پروٹین انسانی جسم کو وہ تمام امائنو ایسڈ فراہم کرتا ہے جو صحت اور تندرستی کے لیے ضروری ہیں۔ اس میں تمام ضروری حیاتین بھی پائے جاتے ہیں۔ عموماً مرغیاں سردیوں کی نسبت گرمیوں میں زیادہ انڈے دیتی ہیں۔ اسی طرح اچھی خوراک کھانے والی مرغیوں کے انڈے زیادہ غذائیت بخش ہوتے ہیں۔ انڈے کی زردی وٹامن ڈی کا خزانہ ہے۔ جانوروں سے حاصل ہونے والی غذاؤں میں دودھ کے بعد انڈا سب سے زیادہ غذائیت بخش اور مفید ہے۔ مگر انڈے کا زیادہ استعمال مضر صحت ہو سکتا ہے کیونکہ تاثیر کے لحاظ سے یہ گرم ہوتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ہفتے میں تین سے چار انڈے کھانا کافی ہے۔ سردیوں میں روزانہ انڈا کھایا جا سکتا ہے۔ انڈا کولیسٹرول بڑھاتا ہے لیکن ایسا عموماً تیل یا گھی میں تلے ہوئے انڈے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بلند فشار خون کے مریض عموماً انڈوں سے اجتناب کرتے ہیں تاہم پست فشار خون کے مریض انڈا استعمال کرتے ہیں۔ انڈے کو اگر اعتدال سے استعمال نہ کیا جائے تو یہ نقصان دیتا ہے۔ وقت نے اس سے کئی غلط تصورات منسلک کر دیے ہیں مثلاً کئی لوگ امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود روز انہ انڈا کھاتے ہیں کیونکہ وہ اسے طاقت بخش غذا سمجھتے ہیں حالانکہ انڈے کی زیادتی فائدے کی بجائے صحت بگاڑتی ہے۔ بالوں میں روکھا پن اور خشکی ہو تو انڈے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ انڈے میں تیل تھوڑی مقدار میں شامل کریں اور بالوں میں لگائیں، کچھ دیر بعد دھونے پر بال نرم و ملائم ہو جائیں گے۔ انڈے جلد کے لیے بھی مفید ہیں۔ اگر جلد خشک ہو تو انڈے کی زردی پھینٹ کر چہرے پر لگائیے۔ چکنی جلد کی صورت میں سفیدی لگائیں۔ اس میں حسب منشا گلاب کا عرق، شہد وغیرہ شامل کیا جا سکتاہے۔ چہرے کی جھریاں ختم کرنے کے لیے دیسی انڈوں کا ماسک بہت مفید رہتا ہے۔ موسم گرما میں چھپکلیوں کی شکایت رہتی ہے، چھپکلیاں کبھی باورچی خانے میں اور کبھی غسل خانے میں نظر آتی ہیں۔ ان سے نجات کے لیے انڈے کا خول بہت مؤثر ہے۔ ثابت انڈے میں ایک جانب چھوٹا سوراخ کر کے زردی اور سفیدی نکال لیں اور خول کو اس جگہ لگا دیں جہاں چھپکلی کا بسیرا ہے، وہاں چھپکلی دوبارہ نظر نہیں آئے گی۔