یہ ماننا پڑے گا کہ اِس بحران میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے آپ کو ایک پُر اعتماد لیڈر کے طور پہ ثابت کیا ہے۔ کوئی فالتو بات نہیں کی، کوئی بڑھک اُن کی طرف سے نہیں آئی۔ نپی تلی باتیں کیں اور یہ اَمر بھی قابل تحسین سمجھا جانا چاہیے کہ اپنے دونوں خطابات میں اُنہوں نے اختصار سے کام لیا۔ قوم سے خطاب اور جوائنٹ سیشن کے سامنے اُن کی تقریر مختصر تھی۔ اُن کے روّیے سے قوم کا اعتماد بڑھا ہے ۔ یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ قوم کے معاملات پُر اعتماد ہاتھوں میں ہیں۔ انڈین ہوا باز کو رہا کرنے کا فیصلہ بھی اچھا اقدام ہے ۔ ایسا کرنے سے پاکستان کا امیج اُبھرا ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ زیادہ بڑھکیں ہندوستان کی طرف سے آ رہی ہیں۔ ہمارا مجموعی روّیہ، وزیر اعظم سے لے کر میڈیا تک، اعتدال والا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے حملے کے بعد پاکستان نے جو ردِعمل دکھایا وہ بھی نپا تلا تھا۔ جوابی حملے تو ہم نے کیے لیکن سیلف ڈیفنس میں اور اِس احتیاط کے ساتھ کہ کوئی جانی نقصان دوسری طرف نہ ہو۔ ہندوستانی جہاز کا ہوائی لڑائی میں گر جانا تو ایک بونس کے طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ہندوستانی ائیر فورس نے ہمارے جہازوں کو روکنے کی کوشش کی اور اِس مشق میں اپنے دو جہاز گنوا بیٹھا۔ ایک پائلٹ بھی اِس طرف گرا اور پکڑا گیا۔ اِس سے حساب صرف برابر نہ ہوا بلکہ ہمارا پلڑا کچھ بھاری ہی رہا۔ اِس سے قوم کے عزم کو تقویت پہنچی ہے۔
1974ء میں جب اسلامی سربراہ کانفرنس پنجاب اسمبلی ہال لاہور میں منعقد ہوئی تھی تو کانفرنس کے بطور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے فرائض ایسے سرانجام دئیے کہ پاکستانیوں کے دل فخر سے بھر گئے۔ وہ منظر سکرین پہ آ رہا تھا اور یہ اچھا لگتا تھا کہ ایک پاکستانی اِس انداز سے اپنے فرائض پورے کر رہا ہے۔ اُس کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی پاکستانی سربراہ کے روّیے سے دلوں میں اُس قسم کے جذبات اُبھرے ہوں۔ ضیا، مشرف اور جمہوریت کی دکان چلانے والے سربراہان سار ے کے سارے بس ویسے ہی تھے ۔ اَب عمران خان کی کارکردگی ایسے رہی ہے کہ دل خوش ہوتا ہے کہ ایک ڈھنگ کا لیڈر پاکستان کے معاملات چلا رہا ہے ۔یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ سویلین حکومت اور عسکری قیادت ایک دوسرے کے ہمنوا ہیں اور ایک ہی طریقے سے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف ہوتے تو یہ ہم آہنگی دیکھنے میں نہ آتی ۔ عسکری قیادت اُن سے شاکی رہتی اور نواز شریف میں بھی وہ اعتماد نہ ہوتا جو ایسی صورتحال میں درکار تھا۔ اعتماد میں کمی کی وجہ سے نواز شریف کے ہوتے یہ خطرہ رہتا کہ پاکستان زیادہ بڑھکوں کی طرف مائل ہوتا۔ آہستہ الفاظ تبھی ادا کیے جا سکتے ہیں جب اندر سے آدمی مکمل ہو۔ عمران خان کی دونوں تقاریر میں ہندوستان کی طرف اَمن کا ہاتھ بڑھانے کی بات جنگجوآنہ الفاظ سے زیادہ نظر آتی ہے۔ جس آدمی کو اپنے آپ پہ بھروسہ ہو وہ ہی ایسا کر سکتا ہے۔ کمزوری والا انسان تو چیخنے چلانے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔مسلح افواج کی قیادت کو بھی داد دینی پڑے گی۔ وہ بھی حوصلے سے کام لے رہی ہے ۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ہر ممکنہ صورتحال کے لئے مسلح افواج تیار ہیں۔
لیکن یہ اَمر بھی قابل ستائش ہے کہ خواہ مخواہ کی نعرے بازی سے کام نہیں لیا جا رہا۔ اِس ضمن میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور تعریف کے حق دار ہیں۔ اِس دوران اُنہوں نے بھی مناسب بات کی جس سے عزم کا اظہار تو ہوتا تھا لیکن غیر ضروری قسم کی سیبر ریٹلنگ سے اجتناب کیا۔ ایک معمولی تصحیح۔ قوم سے پہلے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے پہلی جنگ عظیم کا حوالہ دیا۔ اِس تناظر میں کہ جب جنگیں شروع کی جاتی ہیں تو اُن کا آخری نتیجہ کیا ہو گا کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ وہ جنگ چار سال رہی، چھ نہیں۔ لیکن غیر متوقع نتائج کے بارے میں وزیر اعظم کا نکتہ بالکل درست ہے ۔ اُس جنگ کے اختتام پہ چار ایمپائرز ختم ہوئیں۔ ترکی کا آٹومن ایمپائر تاریخ کے کوڑا دان میں چلا گیا ۔ روس میں زار کی حکومت ختم ہوئی اور کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا۔ جرمن ایمپائر ختم ہوئی اور قیصر کو کسی اور ملک میں پناہ لینی پڑی۔ آسٹررو ہانگیرین ایمپائر کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے۔ ہٹلر کا اقتدار میں آنا بھی پہلی جنگ عظیم کے نتائج میں سے تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے محرکات پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں میں ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ جوائنٹ سیشن کے سامنے تقریر میں عمران خان نے ٹیپو سلطان اور بہادر شاہ ظفر کا حوالہ دیا۔ اُس حد تک تو وہ ٹھیک تھے جب اُنہوں نے کہا کہ ہماری قوم کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے ۔ لیکن بہادر شاہ ظفر سے کچھ زیادتی کر گئے جب اُنہوں نے کہا کہ آخری مغل شہنشاہ کے سامنے زندگی اور غلامی کا چوائس تھا اور اُنہوں نے غلامی کو ترجیح دی۔
یہ بات سو فیصد درست نہیں۔ بیچارے بہادر شاہ ظفر کے پاس تو کوئی چوائس تھی ہی نہیں۔ مغل سلطنت دہلی کے لال قلعے تک محدود ہو چکی تھی اور اِس داستان میں بہادر شاہ ظفر کا قصور نہ تھا بلکہ یہ ایک تاریخی عمل تھا، ایسا عمل جو بہادر شاہ ظفر کی نحیف ذات سے بہت بڑا تھا۔ جب 1857ء کے حالات پیدا ہوئے تو اُن کے سامنے بھی بہادر شاہ ظفر بے بس ٹھہرے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بغاوت پہ آمادہ سپاہیوں کے سربراہ بن گئے۔ وہ بھی اس مجبوری کے تحت کہ اُن کے پاس کوئی اور چوائس نہ تھی اورجب ایک سال کے ہنگامے کے بعد انگریز فتح یاب ہوئے اور اُنہوں نے بغاوت کو کچل دیا تو بہادر شاہ ظفر کو کوئی چوائس پیش نہ کی گئی۔ اُن کے دو بیٹے تختہ دار پہ چڑھائے گئے اور وہ خود انگریزوں کے قیدی بن کے رنگون بھجوا دئیے گئے۔ بہادر شاہ ظفر اپنی ذات میں نہ آزادی کی علامت تھے نہ غلامی کی۔ایک اورچیز: اپنی دوسری تقریر میں وزیر اعظم نے پلوامہ واقعے کو دہشت گردی کا ایک واقعہ قرار دیا۔ یہ ہندوستان کی تشریح ہے۔ کشمیری حریت پسند پلوامہ واقعے کو دہشت گردی کی عینکوں سے نہیں دیکھیں گے۔ ہندوستانی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا راج گرم کر رکھا ہے اور کشمیری نوجوان اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اُن کی نظروں میں عادل ڈار‘ جس نے پلوامہ فدائی حملہ کیا‘ دہشت گرد نہیں ہیرو ہے۔ ہمارا قضیہ صرف اِتنا بنتا ہے کہ ہماری سرزمین ایسے حملوں کے لئے استعمال نہ کی جائے ۔ یہاں پہ کوئی ٹریننگ کیمپ نہیں ہونے چاہئیں۔ ایسی تنظیموں کو یہاں نہ پناہ‘ نہ ہی معاونت ملنی چاہیے۔لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ذہن بند ہو جائیں اور جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے ہم اُس سے صرفِ نظر کرنے لگیں۔ اگر عادل ڈار کشمیر کے حریت پسندوں کا ہیرو ہے تو پھر ہمارا بھی ہیرو ہے ۔ ہماری ہمدردیاں کشمیریوں کے ساتھ رہیں گی اور رہنی چاہئیں۔ کسی کراس بارڈر کارروائی میں ہمیں ملوث نہیں ہونا چاہیے اور نام نہاد افغان جہاد سے پیدا شدہ نام نہاد مجاہدانہ سرگرمیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری ہمدردیاں تو کشمیریوں سے رہیں گی ۔ یہ ایک نازک فرق ہے لیکن ہمیں اِسے ملحوظ رکھنا چاہیے۔ کشمیر ی مریں گے اور لڑیں گے تو ہماری دھڑکنیں اُن کے ساتھ ہوں گی؛ البتہ جیسے اوپر عرض کیا اُس قسم کی سرگرمیاں ترک ہونی چاہئیں جو دنیا کو موقع دیتی ہیں کہ ہم پہ انگلیاں اٹھائی جائیں۔