25 مارچ کو کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کرکٹ شائیقین کی ایک بڑی تعداد نے اپنے پرجوش نعروں ، جوش اور ولولے سے پورے پاکستان کو ایک پر امن پاکستان کا چہرہ دکھایا۔ کتنے ہی سال بعد کراچی کے باسیوں کو قتل و غارت، بھتہ وصولی، جبری گمشدگیوں اور سیاست سے ہٹ کر اپنے شہر میں کچھ اور دیکھنے اور خوش ہونے کا موقع ملا۔ ٹی وی سکرین پر جگمگاتے کراچی کی تصویر دیکھ کی دلی طمانیت محسوس ہوئی۔
اس آرٹیکل کو لکھنے کی وجہ یہ سٹیڈیم یا اس میں بیٹھے لوگ نہیں بلکہ ایک تصویر ہے جو سوشل میڈیا پر اب تک بہت وائرل ہو چکی ہے۔ اس تصویر میں کچھ افراد مل کر پی ایس ایل کا فائنل میچ دیکھ رہے ہیں۔ یہ فائنل میچ وہ کسی ٹی وی سکرین پر نہیں بلکہ ایک سمارٹ فون پر دیکھ رہے ہیں جسے ایک سیلفی سٹک میں لگا کر ایک واضح مقام پر رکھا گیا ہے تاکہ تمام حاضرین کو سکرین نظر آ سکے۔ یہ ہے پاکستان اور یہ ہیں پاکستان کے وہ معصوم لوگ جو اپنی زندگی میں کام کے علاوہ کچھ آرام و تفریح بھی چاہتے ہیں۔ دہشت گردی، شدت پسندی اور عدم برداشت نے ان سے تفریح کے چھوٹے موٹے ذرائع بھی چھین لیے تھے، اب عرصے بعد انہیں پاکستان سوپر لیگ کی صورت میں ایک صحت مند تفریح کا ذریعہ میسر ہوا تو ہر کوئی خوش ہو گیا وگرنہ دہشت گردی نے ان سے ان کی یہ خوشی چھین لی تھی۔
دیگر ممالک میں ویک اینڈ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ لوگ ہفتے کے پانچ دن کام کرتے ہیں اور بقیہ دو دن تفریح میں گزارتے ہیں۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ہم نے گوروں کی تفریح کے متعلق بس کسی کلب میں جانا، ام الخبائث پینا اور ناچنا گانا سنا ہے جبکہ وہاں تفریح کے بہت سے الگ الگ ذرائع دستیاب ہیں۔
بیرونِ ممالک لائبریریز، کیفے، ریستوران، پارکس، تھیٹرز، سنیما عام ہیں۔ جو لوگ کتب بینی کے رسیا ہیں وہ ویک اینڈ پر لائبریری کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنا لیپ ٹاپ اور کتاب اٹھا کر کسی قریبی کیفے پہنچ جاتے ہیں، کافی کے سِپ لیتے ہوئے اپنی کتاب پڑھتے رہتے ہیں یا پھر لیپ ٹاپ پر اپنا کام نبٹاتے رہتے ہیں۔ جو لوگ ایڈونچر کے شوقین ہیں وہ تھیم پارک، سپورٹس کلب یا ہائکنگ کے لیے چلے جاتے ہیں۔
ان ممالک میں ڈنر یعنی رات کا کھانا باقائدہ ایک سرگرمی ہے۔ ویک اینڈ پر دوست احباب مل کر اپنے پسند کے ریستوران میں کھانے کا پلان بناتے ہیں۔ کھانے کی میز پر تاش کھیلی جاتی ہے اور ہلکی پھلکی باتوں کے درمیان کھانے سے لطف اٹھایا جاتا ہے۔
چین میں بھی عوام کی تفریح پر خاص زور دیا جاتا ہے۔ شام میں کبھی ہاسٹل سے باہر نکلتی تھی تو ایک الگ ہی گہما گہمی میری منتظر ہوتی تھی۔ نوجوان اور بوڑھے سب باہر نکلے ہوتے تھے۔ یونیورسٹی میں ایک جگہ ایک جھیل پیانو کی شکل میں بنائی گئی تھی، اس جھیل کے گرد بینچ رکھے ہوئے تھے۔ جوڑے وہاں بیٹھ کر دنیا سے بے خبر ہو کر سورج ڈوبنے کا منظر دیکھا کرتے تھے، کئی لوگ جاگنگ کر رہے ہوتے تھے تو کئی بوڑھے ایک گول دائرے کی شکل میں کھڑے ہو کر ایک کھیل جیانزی کھیل رہے ہوتے تھے۔ اس کھیل میں ایک رنگ برنگی چڑی کا استعمال کیا جاتا ہے جسے اپنے ہاتھوں کے علاوہ دیگر جسمانی اعضاء کا استعمال کر کے ایک دوسرے کو پاس کرنا ہوتا ہے۔
شام کے اوقات میں مختلف کمیونٹی سینٹرز کے باہر عمر رسیدہ چینی جوڑے رقص کرتے ہوئے بھی نظر آتے تھے۔ یہ لوگ اپنے سپیکر پر قدیم چینی موسیقی لگا کر جوڑوں کی شکل میں دھیرے دھیرے رقص کرتے ہیں۔ اس سے ان کی ورزش بھی ہو جاتی ہے اور اچھا وقت بھی گزر جاتا ہے۔
حکومت نے جگہ جگہ عجائب گھر، لائبریریز، پارکس، شاپنگ مالز اور دیگر تفریحی مقامات بنائے ہوئے ہیں جہاں روزانہ ہی ملکی و غیر ملکی افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔
دیوارِ چین پر چلے جائیں، آپ کو کئی بوڑھے افراد وہاں ملیں گے۔ حکومت نے مختلف ٹورازم کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے ہوئے ہیں۔ یہ ٹورازم کمپنیاں مختلف پیکجز نکالتی ہیں اور لوگ ان پیکجز کو خرید کر مختلف جگہوں کی سیر کرتے ہیں۔ بیجنگ میں روزانہ ہی کئی کمپنیاں دیوارِ چین تک ٹرپ لے کر جاتی ہیں۔ آپ وی چیٹ پر ٹرپ کی بکنگ کروائیں اور مقررہ دن پر پہلے سے طے کیے ہوئے مقام پر پہنچ جائیں۔ کمپنی کی بس آپ کو وہاں سے لے گی اور دیوارِ چین کی پارکنگ میں اتار دے گی۔ اب وہاں سے آپ دیوارِ چین پر اپنی چڑھائی شروع کریں، دیوار پر گھومیں اور دن ڈھلے نیچے اتر آئیے، ٹرپ پر آئے تمام لوگوں کے ساتھ کھانا کھائیں اور اپنے گھر کا رُخ کریں۔
ان بوڑھوں کو اپنا بڑھاپا ایسا گزارتے دیکھ کر میں اپنے ملک کے ان بوڑھوں کے بارے میں سوچا کرتی تھی جنہیں ہم ان کے بڑھاپے میں بالکل تنہا کر دیتے ہیں۔ ہم انہیں گھر کا کوئی کام نہیں کرنے دیتے کہ اب یہ آپ کے آرام کے دن ہیں، یہ سوچے بغیر کہ یہ آرام ہی ان کی جان کا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے۔ انہیں بھی اپنی تفریح کے لیے کوئی سرگرمی چاہئیے۔
ہمارے یہ بوڑھے اپنے کمرے میں اکیلے رہنے پر مجبور ہیں، گھر کے مرد رزق کی تلاش میں پورا دن گھر سے باہر رہتے ہیں تو گھر کی خواتین کو گھر کے کام ہی سانس نہیں لینے دیتے اور بچے سکول، ٹیوشن اور قرآن کلاس میں ہی اتنا تھک جاتے ہیں کہ رات کا کھانا کھاتے ہی سونے چل دیتے ہیں۔ اب ایسے میں یہ بوڑھے افراد اپنی تفریح کے لیے کیا کریں؟
ہمارے ملک میں تفریح کے ناکافی ذرائع کے لیے صرف حکومت کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا کافی نہیں ہے، ہم سب بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہم نے اپنی باتوں سے کتنے ہی سال سنیما کو ایک فحش تفریح بنائے رکھا۔ جو لوگ سنیما جاتے تھے، انہیں ہم برا تصور کرتے تھے۔ اسی طرح ریڈیو اور ٹی وی کو بھی ہم شیطانی آلات مانتے تھے۔ پارکس میں خواتین کو گھورنے، جملے کسنے اور جنسی طور پر ہراساں کرکے ہم نے پارکوں کی رونقیں بھی ختم کر دیں تھیں۔ ہمارا بیٹا ہمارے ہاتھ سے نہ نکل جائے، اس خوف سے ہم نے کبھی اسے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کوئی دن اکیلے بھی گزارنے نہ دیا۔ رہی سہی کسر دہشت گردی نے نکال دی۔ اس کے بعد بھی اگر کچھ لوگ ہر اتوار خاندان کے ساتھ باہر کھانا کھانے کی روائیت قائم رکھے ہوئے تھے، انہیں ہم نے وہ کچھ کھلایا کہ اب وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں کچھ نہیں کھاتے۔
عوام کو تفریح کے مناسب ذرائع فراہم کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے اور ان ذرائع کو ان کی اصل حالت میں قائم رکھنا اور فروغ دینا عوام کی ذمہ داری ہے۔
ہم نے صحت مند تفریح کو ترک کرکے دوسروں کی غیبت اور چغلیوں کو اپنی تفریح بنا لیا ہے۔ یہ موقع ہمیں جہاں ملے ہم نہیں چھوڑتے، بے شک کسی کے جنازے پر ہی کیوں نہ ملے۔ تیزی سے بدلتا ہوا سعودی عرب ہمارے لیے ایک مثال ہے۔ اپنی عوام کی خوشی اور ملک کی بہتری کے لیے سعودی عرب ایسے فیصلے کر رہا ہے جس سے آنے والے وقت میں انہی کا فائدہ ہوگا۔ ہمیں بھی اب قدامت پسندی کا چولہ اتار کر روشن خیالی اور ترقی پسندی کو گلے لگانا چاہئیے تاکہ ہماری اگلی نسلیں شدت پسندی کی بجائے امن پسند ہوں۔