لاہور: پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے ۔انہیں تشدد کانشانہ بنا کر احکامات پر عمل کرانا سکھایا جاتا ہے ۔سابق وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی جو پہلے سابق گورنر و وزیر اعلیٰ پنجاب غلام مصطفے کھر کی منکوحہ تھیں ،انہوں نے اپنی کتاب ”مینڈا سائیں“ میں جیلوں میں قیدیوں کی حالات زار کے واقعات سے پردہ اٹھاتے ہوئے اپنی ان یادداشتوں کو قلم بند کیا ہے جب وہ اپنے شوہر (سابقہ) سے انکی قید کے دوران جیل میں ملاقات کے لئے جایا کرتی تھیں۔
تہمینہ درانی ہر اتوار کے دن لاہور سے راوالپنڈی قیدی شوہر سے ملنے جاتی تھیں ۔انہوں نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے جہاں غلام مصطفے کھر کی بہادری اور انسانی ہمدردی سے پردہ اٹھایا ہے تو وہاں بے سہارا قیدیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا دردمندی سے ذکر بھی کیاہے۔وہ لکھتی ہیں” ایک روز ہماری ملاقات میں ایک چیخ سے خلل پڑا ۔ چیخ سن کر یوں لگا جیسے کسی کے جسم سے اس کی روح کو نوچ کھسوٹ کر کھینچا جا رہاہو۔ میں نے کانوں میں انگلیاں دے لیں۔ مصطفےٰ کی آنکھیں غصے سے سنگ اٹھیں ۔ اس نے خاصی دیر انتظار کیا۔ پھر اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور ڈگ بھرتا ہوا مقفل دروازے تک گیا۔ اس نے دروازے کو زور زور سے کھٹ کھٹایا اور حکم دیا ”کھولو“ سہمے ہوئے پہرے دار نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ مصطفےٰ نے اس آدمی کو کسی کیڑے کی طرح ایک طرف دھکیلا اور غضب آلود شیر کی مانند ادھر لپکا جدھر سے چیخوں کی آواز آرہی تھی۔ بیچارا پہرے دار دبی آواز میں کچھ کہتا اور ذرا فاصلہ رکھ کر اس کے پیچھے چلتا رہا۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش کر رہی تھی جس پر ایسا لگتا تھا کہ بھوت سوار ہے۔ہم ایک بڑے احاطے میں جا نکلے جہاں قیدی دو دو کی ٹولیوں میں اکڑوں بیٹھے تھے ۔ وہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے دکھائے جانے والے ایک دل فراش منظر کے خاموش تماشائی تھے ۔ قیدیوں کو سبق سکھایا جا رہا تھا کہ اس کے ہاتھ پیرپھیلے ہوئے تھے ۔ پولیس والے اسے لاتیں مار رہے تھے اور ڈنڈوں سے پیٹ رہے تھے ۔ اس کے جسم سے جگہ جگہ سے خون بہہ رہا تھا اور اس پر نیم بے ہوشی طاری تھی ۔ اس کے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ اب بھی تکلیف کو محسوس کر سکتا تھا جس کا اظہار خوف ناک چیخوں کی صورت میں ہو رہا تھا۔ پہرے داروں نے اس کی ٹانگیں پھیلا رکھی تھی ۔ میں محسوس کر سکتی تھی کہ وہ کیسی روح فرسا اذیت سے گزررہا ہوگا۔ وہ سسکیاں لے رہا تھا۔ اس کی پتلیاں اتنی اوپر چڑھ چکی تھیں کہ نظر نہ آتی تھیں۔ اس کے بعد ایک دہشت ناک ، موت جیسی ، خاموشی چھاگئی۔
اب مصطفےٰ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی طرف بڑھا ۔ اس کی آنکھوں میں دھمکی تھی ۔ اس نے عذاب دینے والے کو گالوں سے لیا۔ میں نے ایک زوردار تھپڑ کی آواز سنی پھر ایک اور تھپڑ پڑا۔ ڈپٹی کے اوسان خطا ہوگئے لیکن اس میں ہمت نہ تھی کہ پلٹ کر کچھ کہتا یا کرتا۔ مصطفےٰ کھر ان قیدیوں میں ایسا آدمی تھا جس کا لحاظ کرنے پر ڈپٹی مجبور تھا۔ مصطفےٰ نے کڑکتی ہوئی آواز میں کہا” اگر میں نے دوبارہ کوئی چیخ سنی تو میں مار مر کر تمہارا کچومر نکال دوں گا“ اتنا کہہ کروہ مڑا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا اپنی کوٹھری کی طرف چلا گیا ۔ مشن مکمل ہو چکا تھا اگر قیدیوں میں حوصلہ ہوتا تو وہ واہ واہ کر اٹھتے ۔ ان کی نگاہوں سے تحسین کی کیفیت چھلک رہی تھی ۔ مصطفےٰ نے یہ دکھا دیا تھا کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ وہ ان کا نگہبان ہے۔ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مصطفےٰ کے پاس کوٹھری میں آیا ۔ تین پولیس والے اس کے ہمراہ تھے ۔ وہ ابھی تک حواس بافتہ تھا۔ (مصطفےٰ کو ہمیشہ سر ہی کہا جاتاتھا) ” آپ کو اتنے سارے قیدیوں کے سامنے مجھے تھپڑ نہیں مارنے چاہئیں تھے۔ اب وہ کبھی میری عزت نہیں کریں گے“ تم ان کی عزت کے مستحق ہی کب ہو۔ تم خوف اور تشدد کے بل بوتے پر حکومت نہیں کر سکتے ۔ میں تمہیں ملازمت سے نکلوا دوں گا۔ تمہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔ حرامزادے، ہمارے پاس سے چلے جاﺅ۔ میں تم سے گفتگو کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتا۔ وقت آنے پر تم سے نمٹ لوں گا“ یہ حاکمیت بھرا لہجہ تھا جس میں قہاری بھی تھی اور یہ اشارہ بھی کہ جاﺅ دفع ہو ، مصطفےٰ نے ، جو کبھی پنجاب کا گورنررہ چکا تھا۔ اپنے ماضی کا لب و لہجہ پھر سے اپنا لیا تھا۔ اس بدبخت افسر نے زیر لب بڑ بڑا کر معافی مانگی اور شرمندگی سے وہاں سے چلا گیا۔