استاد کا کسی بھی معاشرے کی ترقی میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں ترقی کا انحصار اس شعبے کی معیاری تعلیم پر ہے۔ جب تک ایک معاشرے میں ایک خاص علم سکھانے والے موجود نہ ہوں گے تب تک اس علم کو سیکھنے اور اس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیسے ہو گا۔
موضوع اہم ہے اور بہت حسّاس بھی، کیونکہ اس کا تعلق تعلیم کے اُس حصے سے ہے جس کے بعد ایک فرد درسگاہ کی چار دیواری سے نکل کر معاشرے کا ایک باقاعدہ یا یوں کہیے کہ ’’فُل ٹائم حصہ‘‘ بن جاتا ہے۔ اعلیٰ مگر غیر معیاری تعلیم۔ ہمارے ملک میں ہر سال لاکھوں طلباء اپنی گریجویشن مکمل کرکے نکلتے ہیں۔ یعنی کہ ڈگری کی حد تک اعلیٰ تعلیم حاصل تو کر لیتے ہیں مگر وہ تعلیم کتنی معیاری ہوتی ہے اس پر بحث کرنے کی فرصت کسی کے پاس نہیں۔ بطور مجموعی ہم پانی سر سے گزر جانے کے بعد تدبیریں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک خبر آج کے اخبار میں چھپی ہے جس کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو سی ایس ایس کے امتحانات کے نتائج کی ابتر صورتحال جانچنے کےلیے انکوائری کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔ انکوائری کمیشن سے بصد احترام ایک گزارش ہے کہ ادھر ادھر جانے اور فائلیں کھنگالنے کی بجائے کسی بھی نجی یونیورسٹی کے کسی شعبے کی ایک کلاس لے کر دیکھ لیں، امید ہے صورتحال واضح ہو جائے گی۔
کسی بھی دوسرے منافع بخش ادارے کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھتی جبکہ تعلیم کا معیار گھٹتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ میں سے ایک کلاس روم کا ماحول اور کلاس پڑھانے والا معلّم ہے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہے۔ ایچ ای سی کے قواعد کی بات کریں تو کسی بھی یونیورسٹی میں استاد کا درجہ حاصل کرنے کےلیے آپ کو متعلقہ شعبے میں سولہ سالہ تعلیم مکمل ہونے کی سند دکھانی ہے، جس میں کوئی تھرڈ ڈویژن نہ ہو۔ اور اگر ہے تو دو سال اور لگا کر ایم فل کر لیجیے تو تھرڈ ڈویژن کی شرط آپ پر لاگو نہیں ہو گی۔ آپ کو محض ایم فل ہونا چاہیے۔ آپ کا شعور، دانست، سوچ، معاملہ فہمی، شخصی کمزوری، پست ذہنیت، وغیرہ وغیرہ اس ڈگری کی آڑ میں چھپ جائیں گے۔ معنی رکھتا ہے تو فقط ایک کاغذ کا ٹکڑا جو آپ کو استاد کے درجے پر فائز کرنے کےلیے کافی ہے۔ اس سوچ کا عملی مظاہرہ ملک بھر کی نجی یونیورسٹیوں کے کلاس رومز میں دیکھا جا سکتا ہے۔
استاد بننا باقاعدہ ایک آرٹ ہے، ایک ایسا فن ہے جسے آزمانے والے کو عام انسانوں سے ہر لحاظ سے مختلف ہونا پڑتا ہے۔ جس طرح زندگی کے کسی بھی شعبے میں نوکری کرنے کےلیے پہلے ٹریننگ ہوتی ہے پھر ایک عدد ٹیسٹ ہوتا ہے اور اس میں پاس ہونے والا امیدوار اس ذمہ داری کو نبھانے کےلیے اہل سمجھا جاتا ہے۔ مگر کیا ملک اور قوم کے مستقبل کو بنانے والوں کےلیے ایسا کوئی عمل ایچ ای سی کی جانب سے زیر غور رہا ہے؟ جواب سادہ سی نا ہے۔
یہ تو ایسا ہی ہوا کہ اٹھارہ سال تک آپ کسی کو ڈرائیونگ کرتے ہوئے دیکھتے رہیں اور ایک دن خود کو ڈرائیور سمجھ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جائیں اور اپنے ساتھ کئی اور قیمتی جانوں کو نقصان میں ڈال دیں۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ استاد بننے کے خواہشمند افراد کے لیے تعلیمی کیریئر مکمل ہونے کے بعد متعلقہ شعبے میں ایک سال فل ٹائم نوکری کو ضروری قرار دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایچ ای سی کی جانب سے ٹیچرز ٹریننگ کورس کا بھی آغاز کیا جائے اور یونیورسٹی کی سطح پر پڑھانے کے لیے اس کورس کو پاس کرنا لازمی قرار دیا جائے۔
ہمارے دیہاتوں میں واقع اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کا معیار پہلے ہی ناقص ہے، وہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے یہ سوچ کر شہر کا رخ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کی سطح پر سیکھنے کو کچھ علم نصیب ہو گا مگر افسوس کہ حالات یہاں بھی ابتر ہی ملتے ہیں۔
بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ طلباء کسی استاد کے پڑھانے کے طریقہ کار سے متعلق شکایت لے کر ایڈمنسٹریشن کے پاس جاتے ہیں تو ان کی شکایت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ بصورتِ دیگر انتظامیہ کو متعلقہ استاد کی جگہ کسی نئے استاد کو بھرتی کرنے کے اخراجات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ہر یونیورسٹی میں اپنا ایک دفتر کھولا جائے جو تعلیمی اور تدریسی نقائص کے حوالے سے طلباء کی شکایات پر عملدرآمد کروائے یا پھر ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر ایک ایسا پورٹل ہونا چاہیے جو طلباء کو پیش آنے والے مسائل کو متعلقہ ادارے سے فی الفور حل کروائے۔ اور اسی کی بنیاد پر آپ کو یہ لائسنس مل جاتا ہے کہ آپ بچوں کے مستقبل سے جیسے چاہیں کھیل لیں۔
یہ تجاویز اپنی جگہ مشکل سہی مگر ناممکن بالکل بھی نہیں۔ آسانی تو کچھ نہ کرنے میں ہے۔ کچھ کرنے میں تو محنت درکار ہے۔