لاہور: سوشلستان کے نمایاں ٹرینڈز میں ‘بدل گیا ہے کے پی’ نمایاں ٹرینڈ ہے جس میں پی ٹی آئی کے سرکاری اکاؤنٹس اور مختلف کارکن صوبے میں مختلف کاموں کی تفصیلات شیئر کر رہے ہیں جو ان کی پارٹی کی قیادت میں کیے گئے۔ اس کے ساتھ ان کاموں پر تنقید کرنے والے بھی موجود ہیں۔
دوسری جانب یو ٹرن کا معاملہ ہے جو سمجھنے کے لیے ہم آج سوشلستان میں اس میں آپ کی آرا شامل کریں گے۔اک اور یوُٹرن کا سامنا تھا عمران مجھ کو‘صوبہ پنجاب میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن نے مل کر نگران وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان کیا تو سب نے سکھ کا سانس لیا کہ بلآخر ‘ہمارے سیاستدان اتفاقِ رائے کے ساتھ فیصلے کر سکتے ہیں۔’مگر اس کہانی میں پھر آ گیا ‘یو ٹرن’ اور پاکستانی سیاست میں یو ٹرن نہ ہوں تو کہانی سیاسی نہیں لگتی۔پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے اس یو ٹرن کی توجیح پیش کرتے ہوئے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے ناصر کھوسہ کی تعریفیں کرنے کے بعد کہا ‘ہم نے ان کا نام جب دیا تو اس کے بعد سوشل میڈیا پر، پبلک میڈیا کے اوپر اور خود ہماری پارٹی کے اندر ایک ردِ عمل آیا اور اس ردِ عمل کے نتیجے میں یہفیصلہ کیا گیا کہ چونکہ انتخابات ایک بہت حساس معاملہ ہے’ اور اس کے بعد ناصر کھوسہ کا نام واپس لینے کی بات کی۔اب سوشل میڈیا جس کا نام لے کر یہ یو ٹرن لیا گیا بھلا کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اس کے نام پر اتنی بڑی بات کہی جا سکے۔
جنید قیصر نے لکھا ‘یہ تاریخی کام صرف تحریک انصاف ہی کرسکتی ہے کہ ناصرکھوسہ کا نگران وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے نام تجویز کرنے سے پہلے ان سے مشورہ بھی نہیں کیا گیا۔ یہ ہوتی ہے پارٹی یہ ہوتا ہے لیڈر یہ ہوتا ہے سنجیدہ ویژن۔’انہوں نے مزید سوال کیا کہ ‘اگر کھوسہ صاحب کا نام اس لیے واپس لیا کہ سوشل میڈیا سپورٹرز کا اس فیصلے کے خلاف شدید رد عمل آیا۔ توسوال یہ بھی بنتا ہے کہ سب سے شدید ردِعمل سوشل میڈیا پر پی پی پی کے لوٹوں اور عامر لیاقت کو لینے پر آیا، اس وقت آپ حرکت میں کیوں نہیں آئے؟‘اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں محمود الرشید پر بھی شدید تنقید ہو رہی ہے۔سردار شاہد ریحان نے لکھا ‘ایک شخص جو طارق اور ناصر میں فرق نہیں کر سکتا اسے سب سے بڑے صوبے میں حزبِ اختلاف کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ ستم ظریفی ہے۔’فیصل شیرجان نے بھی تنقید کرتے ہوئے لکھا ‘پی ٹی آئی نے محمود الرشید جیسے حضرات کو کیوں اتنی اہم ذمہ داری دے رکھی ہے؟ پنجاب کے حزبِ اختلاف کے رہنما ہونے کے ناطے یہ اُن کی مکمل طور پر ذمہ داری ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنی تحقیق کرتے۔’میمونہ عالم نے لکھا ‘آپ کو پتا ہے کہ جسٹس ناصر الملک کا نام نگراں وزیراعظم کے طور پر کیوں حتمی ہوا؟ کیونکہ پی ٹی آئی اس معاملے میں شامل نہیں تھی۔ یہ یو ٹرن نہیں یہ راؤنڈ اباؤٹ ہے۔’بہت سے ایسے بھی ہیں جو اس بات کو سراہ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں اچھا ہوا یہ اب ہو گیا۔سلمان نصیر نے ٹویٹ کی کہ ‘پی ٹی آئی اپنے فیصلوں پر یو ٹرن لے رہی ہے جو کہ ان کی جانب سے اپنی غلطیاں سدھارنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔’میمونہ خٹک نے بھی یہی بات کی کہ ‘نام واپس لینا بہتر آپشن ہے بجائے اس کے کہ انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور شرابا کیا جائے۔’مگر لوگ اس موقع کی مناسبت سے پی ٹی آئی کی فیصلہ سازی پر بھی کڑی تنقید کر رہے ہیں کہ اس سیاسی جماعت میں فیصلہ سازی کتنی بچگانہ ہے۔صحافی نسیم زہرہ نے اس حوالے سے لکھا ‘حقیقت میں بدلا کیا ہے؟ محمد الرشید کے مطابق ناصر اور طارق میں کنفیوژن تھی۔ پھر ناصر کھوسہ کا نام فائنل ہونے کے بعد بہت سارے لوگوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا خصوصاً جب میاں نواز شریف نے کہا کہ ناصر کھوسہ میرے پرنسل سیکرٹری رہے ہیں اور ایک اچھے آدمی ہیں تو اس پر ردِ عمل آیا اور میرا فون مسلسل بجتا رہا۔’ ناقابلِ یقین بچگانہ پن ہے