ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جسے اپنی زندگی عزیز نہ ہو۔ سب سے قیمتی متاع ہمارے پاس یہی ہوتی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اس کی اس زندگی کی قیمت کیا ہے؟ ہم میں سے ہر شخص کیلئے زندگی کی قیمت کے حوالے سے مختلف رائے ہو گی۔ کچھ کیلئے زندگی کی بہت قیمت ہو گی اور کچھ تو اس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھتے ہیں جیسے یہ خدا کی کوئی نعمت نہیں بلکہ مانگے، تانگے کی چیز ہے۔
کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ،
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
مگر زندہ دلوں کو زندہ رہنے کس نے دیا، زندہ دلی ہی جرم بنا دی گئی۔ کچھ زندگی کی تشریح قرآن حکیم کی اس آیت سے کرتے ہیں۔
الذی خلق الموت و الحیوٰۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا وھوالعزیز الغفور ٭
اس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب (اور) بخشنے والا ہے۔ (سورۃ ملک، آیت2 )
کچھ کے نزدیک زندگی پنجابی کی یہ کہاوت ہے کہ
“ایہہ جگ مِٹھا‘ اگلا کس نے ڈِٹھا”
(یہ ہی اصل زندگی ہے، اگلا جہان کس نے دیکھا ہے)
کچھ منچلوں سے پوچھا جائے تو وہ کچھ اس قسم کا جواب دیتے ہیں،
کوئی پوچھ رہا ہے مجھ سے میری زندگی کی قیمت
تیرا ہلکا ہلکا مسکرانا مجھے یاد آ رہا ہے
اور کچھ تو اس حد تک سنجیدہ مزاج واقع ہوئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ زندگی کی قیمت کا اندازہ تو مرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
“زندہ ہاتھی لاکھ، مردہ سوا لاکھ کا”
کہاوت تو سب نے سن رکھی ہے مگر یہ دیکھیے کہ،
چکن 200روپے کلو اور چکن کڑاھی 700روپے کلو۔
مگر کبھی کچھ لمحاتِ تنہائی اس سوال کی نذر کیجئے گا ضرور کہ زندگی کی قیمت کیا ہے؟ “آوازِ دوست” میں “مختار مسعود” زندگی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
“قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی”
آپ خود بھی اس بات کا تجربہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ دیکھیں بازارِ دنیا میں زندگی کس بھائو ملتی ہے۔ زندگی کے دام کتنے ہیں۔ شاید ہی آج کوئی اس جیسی قیمتی چیز اس سے بھی ارزاں رہ گئی ہو۔ جس ملک میں ہر روز کئی درجن افراد کی لاشیں گرتی ہوں، جہاں ملک کے سب سے بڑے شہر میں پانی کمیاب ہو اور سڑکوں پر لہو بکثرت ملتا ہو، جہاں بھتہ نہ دینے پر ڈھائی سو کے قریب لوگوں کو زندہ جلا دیا جائے، جہاں چار لوگوں کا جمع ہو جانا خطرے کی علامت متصور ہوتا ہو، جہاں قاتل و مقتول دونوں نوحہ کناں ہوں، وہاں زندگی کی کیا قیمت رہ جاتی ہے۔ یہ چشم حیران تو پانچ، پانچ ہزار روپے لیکر قتل کرنے والے افراد بھی دیکھ چکی ہے اور محض چند روپوں کی خاطر قتل کر دئیے جانے والے افراد کیلئے بھی آنسو بہا چکی ہے۔ زندگی کی قیمت کیا ہو سکتی ہے اور پھر ہم جیسوں کی زندگی کی قیمت کوئی ہو سکتی ہے؟ یہاں تو جس کی لاٹھی ہے، اسی کی بھینس ہے۔ جس کے پاس انبارِ دولت ہیں محض اس کی زندگی کی ہی قیمت ہے، باقی سب تو بے مول ہیں۔ بازار لگا پڑا ہے، ضمیر بکتا ہے، ایمان بکتا ہے، انسان بکتا ہے اور تو اور چند ہزار روپوں میں خود کش حملہ آور بھی بکتا ہے۔
اگر آپ لاہور کے زین ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت بی ایم ڈبلیو گاڑی کا وہ سات ہزار والا شیشہ ہے جس کے ٹوٹنے پر مصطفیٰ کانجو نے ہنگامہ کھڑا کیا اور یہ لڑائی زین کے قتل پر منتج ہوئی۔
اگرآپ کراچی کے شاہ زیب ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت شاہ رخ جتوئی کی بیہودہ نظروں پر اعتراض کرنے کے مساوی ہے۔
اگر آپ لاہور کے طاہر ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت محض ایک اوور ٹیک ہے کہ جس پر سابق وزیرِ اعظم کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کے محافظوں نے طاہر کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
اگر آپ مردان کے مشال ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت نظریاتی ڈگر سے تھوڑا ہٹ کر چلنا بھی ہو سکتی ہے جس کے باعث ہجوم آپ پر پل پڑتا ہے اور چند منٹوں میں آپ کو فانی وجود سے آزاد کر دیتا ہے۔
اگر آپ ہنگو کے اعتزاز احسن ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت باقی افراد کو بچانے کی فکر بھی ہو سکتی ہے کہ جس کے لیے آپ اپنی تمام سوچوں سے آزاد ہو کر خودکش حملہ آور کو تھام لیتے ہیں اور پورے سکول کو بچا لیتے ہیں۔
اگر آپ افغانستان کی فرخندہ ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت ایک مذہبی پیشوا سے کسی معاملے میں الجھنا ہو سکتی ہے کہ جس کے باعث اس پر توہینِ قرآن کا الزام لگا کر “پاکبازوں” نے اسے سنگسار کر دیا تھا۔
اگرآپ سپاہی مقبول حسین ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ لگانا بھی ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں آپ پر اس قدر ظلم و ستم کیا جاتا ہے کہ کسی چیز کا ہوش ہی باقی نہیں رہا۔
اگر آپ بارڈر پر کھڑے سپاہی ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت دشمن کی طرف سے “ازراہِ تفنن” چلائی گئی کوئی گولی بھی ہو سکتی ہے۔
اگر آپ پاک افغان سرحدی علاقے میں رہنے والے کوئی معصوم بچے ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت آپ کے آس پاس بسنے والے مشکوک افراد ہیں کہ کسی بھی وقت، کسی بھی ڈرون حملے میں آپ شک و شبہے کی نذر ہو سکتے۔
اگر آپ تھر میں بسنے والے کوئی شخص ہیں تو شاید آپ کی زندگی کی قیمت پانی کی چند بوندیں ہوں کہ جن کیلئے آپ کو سسک سسک کر مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اگر آپ خاتون ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت اپنے “سرپرست، ولی، شوہر، بھائی، حتیٰ کہ بیٹے” سے اختلاف کرنا بھی ہو سکتی ہے جس کے باعث کبھی لاہور ہائی کورٹ کے احاطہ میں فرزانہ کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے تو کبھی کراچی میں زینب کو۔
اگر آپ ایک عام شخص ہیں، بالکل عام سے، تو پھر آپ کی زندگی کی قیمت کا ہونا ضروری نہیں۔ آپ کسی اشارے پر، ایمبولینس میں اس وجہ سے جان دے سکتے ہیں کہ سڑک سے “صاحب” گزرنے والے ہیں، آپ کو راہ چلتے کوئی عابد باکسر، کوئی رائو انوار اٹھا سکتا ہے اور پھر آپ کی لاش ہی گھر پہنچے گی۔ آپ ناکے سے چند قدم آگے بائیک کھڑی کرتے ہیں تو پھر آپ پر برسٹ فائر کیے جا سکتے ہیں، ممکن ہے کہیں مزدوری کرتے ہوئے مٹی کا تودہ گرنے سے آپ جازی کی بازی ہار جائیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بڑے شہر میں، عالمی معیار کے تعمیراتی پراجیکٹ میں “نظرِ بد” سے بچنے کے لیے آپ کا خون بہانے کی ضرورت پڑ جائے اور آپ وہاں کام آ جائیں… جیسے لاہور کا اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ شروع ہونے سے قبل ہی بیس کے قریب افراد کو نگل چکا ہے۔
کسی کے نزدیک زندگی کی قیمت اس کے خوابوں کی تعبیرہے اور کوئی دوسروں کیلئے جینے کو زندگی کی حقیقی قیمت سمجھتا ہے مگرکبھی سوچیے گا ضرور کہ آپ کی سب سے قیمتی متاع، سب سے عزیز شے یہ زندگی، یہ چند فٹ کا وجود کہ جس پر آپ اتنا مان کرتے ہیں اسکی قدر و قیمت کیا ہے، اس کے اصل دام کتنے ہیں۔