لاہور (ویب ڈیسک) ہمارے دلچسپ اور باغ وبہار پنڈی وال سیاست دان شیخ رشید کا اسلام آباد میں 164 روزہ عمرانی،قادری دھرنے کے دوران ایک بیانیہ بہت مشہور ہوا تھا ۔فرماتے تھے میں ’’عید قرباں سے پہلے ایک اور قربانی دیکھ رہا ہوں‘‘۔یعنی دھرنے کے نتیجے میں حکومت گرنے والی ہے ۔جب کبھی کنٹینر پر نمودار ہوتے نامور کالم نگار ڈاکٹر مجاہد منصوری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تو بھی یہی بیانیہ ان کی پُرجوش تقریر کی باٹم لائن ہوتا۔پاکستان کے تمام پرآشوب سیاسی ادوار میں کوئی نہ کوئی ایسا سیاست دان نکل ہی آتا ہے جو اپنے ذاتی تجزیوں اور پیش گوئیوں سے حکومت گرانے یا خود گرنے کی حسرت کا اظہار مسلسل کرتا رہتا ہے۔بھٹو دور میں ایسا سیاسی ابلاغ ،اللہ بخشے بڑے سچے اور کھرے سیاستدان اصغر خاں کا ہوتا۔ پاکستان پر مسلط اسٹیٹس کو، ’’تبدیلی‘‘ حکومت کے برسراقتدار آنے کے باوجود کوئی ملیامیٹ نہیں ہوگیا، یہ چھوٹے بڑے زخم کھاتا جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ غور فرمائیں!متحدہ اپوزیشن کو مولانا فضل الرحمٰن کی پھونک سے بننے والی رہبر کمیٹی کے قیام کے باوجود نجانے کیا سوجھی کہ پہلے ہی سے زخموں سے چور نون لیگ اور پی پی نے اچھا بھلا کاروبار ایوان چلاتے بلوچستان کے ہنستے مسکراتے نئے چہرے صادق سنجرانی کی سینیٹ سربراہی کو ذبح کرنے کا فیصلہ کر لیا، پی پی اور نون لیگ مولانا کی رہبری سے اسٹیٹس کو برانڈ جمہوریت کے جذبے سے سرشار تھیں ۔دونوں پی پی اور ن لیگ، ایک دوسرے کی ڈھال تو کوئی تیرہ برس قبل لندن میں ہی بن گئی تھیں اور اپنے بنائے ہوئے نظام بدکو بچانے کے لئے فرینڈلی اپوزیشن کا روپ دھارنے پر بھی نہ صرف غیرعلانیہ تیار ہی نہیں تھیں بلکہ گزشتہ گیارہ سال کی دو حکومتی باریوں میں اس کا کامیاب مظاہرہ بھی کیا گیا اور تبدیلی کیلئے 22سال سے چیختے چنگھاڑتے خانِ اعظم کیلئے تنگ پھنگ اقتدار کی جگہ بنا ہی دی۔ اب تینوں ہی خاندانی سیاسی جماعتیں، ن لیگ، پی پی اور مولانا کی جمعیت عمرانی حکومت کی سخت متاثر ہیں ان کی باہمی ہار جیت تو پہلے بھی چل رہی تھی، مولانا صاحب ہار کی فکر سے بے پروا روایتی نظام سیاست و حکومت کے مزے خوب اڑاتے رہے، اپنے زور پر بھارت کی مسلط عسکری طاقت کے قابو سے باہرہوتی نہتے اور مظلوم کشمیریوں کی تحریک آزادی بھی مولانا کی آسودگی کو معمولی سا بھی متاثر نہ کرسکی۔کشمیر پر پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین مولانا صاحب کو ہی بنایا جاتا رہا۔ اس سارے پس منظر کے ساتھ تبدیلی کے چلتے جھکڑ میں حضرت صاحب کی (ان کے لئے ناقابل یقین) انتخابی شکست بلاشبہ قوم کے لئے تیزی سے ناقابل قبول ہوتے سیاسی خاندانوں اور ان کے خانوادوں کی روایتی سیاست کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں ۔شاید اسی میں اسٹیٹس کو کی متذکرہ تینوںمتاثرہ جماعتوں نے بلاٹالنے کے لئے بلوچستان سے ایک غیر روایتی اور تازہ دم سینیٹ قیادت کی قربانی سے قبل قربانی کا فیصلہ کیا لیکن الٹی ہو گئی سب تدبیریں، چھری ہی نہیں چلی، کند تھی، اب شور ہے کہ کند کس نے کی؟پہلے سے زخمی یار ان سیاست کی آہ وبکا جاری ہے اسی پر تو غالب نے کہا تھا: زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی یا رب! ۔۔ تیر بھی سینۂ بسمل سے پرافشاں نکلا ۔۔ سینیٹ کی سربراہی کے انتخاب میں 14ووٹ خلاف پڑنےیا مسترد ہونے سے متحدہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار حاصل بزنجو کی جیت کے مکمل یقین اور حالات اور فضا سازگار ہونے کے باوجود ہار گئے، روایتی تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو متحدہ اپوزیشن کے امیدوار انتخاب میں لاحاصل رہنے والے حاصل بزنجو کے ہمرکاب جواں سال تازہ ذہن صادق سنجرانی کے مقابل کہیں زیادہ مضبوط اور تجربے کار امیدوار تھے، سو یہ تبدیلی کے مقابل اسٹیٹس کو کسی شکست وریخت کی واضح تصدیق نہیں ہوئی یہ پی پی ،ن لیگ، ف والی جمعیت اور حاصل بزنجو جیسے تھکے ماندے روایتی سیاست دانوں پر مانند سیاسی عذاب نہیں ؟جس سے نجات کے لئے ان کی قربانی کے فیصلے پر ان کے اپنے ساتھیوں کے دل نے بھی لبیک نہیں کہا، اور ’’زرداری کا بچہ‘‘ قربانی سے بچ گیا الٹی رہبر کمیٹی کی موجودگی میں اسٹیٹس کو کی سیاست مزید زخمی ہو گئی۔ اب آتے ہیں 14ووٹوں کے ڈرامے، چال، فنکاری اور اپنی آزادی کی خودقدر کی طرف یہ تو لغو ہے کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے ۔اس انتخاب میں ہارس ٹریڈنگ کو رپورٹ کرنا میڈیا کے لئے آسان تر ہونا، میڈیا تو ملک بھر میں ہونے و الی ہارس ٹریڈنگ کی مفصل رپورٹنگ کی سکت اس وقت رکھتا تھا جب رپورٹرز آج کی جادو بھری ٹیکنالوجی سے لیس نہیں تھے ۔ہارس ٹریڈنگ کا ماحول ہوتا ہے جس میں رپورٹرز وہ سب سونگھ لیتے ہیں جو موجود ہو، اور ہو رہا ہو۔سینیٹ کی چیئرمین شپ کے حالیہ انتخاب میں ہارس ٹریڈنگ ہارڈ، کیا سوفٹ فیکٹس کے ساتھ بھی رپورٹ نہیں ہوئی ماسوائے ٹاک شو ز میں الزام اور خدشات کا اظہار ہوا، وہ بھی لوپروفائل میں۔ وہ تمام روایتی سیاسی جماعتیں جو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نئے کم گو ،کم تجربے کار لیکن بہت جلد پوری سینیٹ کے لئے قابل قبول ہو جانے والے نئے سیاست دان کی شکست کی متمنی تھیں، اپنے امیدوار جناب حاصل بزنجو کی شکست سے ایک روز میں ہی اتنی کمزور نہیں ہوئیں جتنی ٹی وی اسکرینوں پر نظر آ رہی ہیں۔ اس سے زیادہ بڑا دھچکا ان کو پارٹیوں کے اندرونی معاملات کے بے نقاب ہونے سے لگا ہے۔یہ 14ووٹ تو عددی اعتبار سے چھوٹے لیکن آئینی اہمیت کے حامل بڑے اہم فورم سے روایتی پارٹیوں کے اندر باغی رجحانات کی نشاندہی کرگئے۔ ان جماعتوں خصوصاً نون لیگ کے لئے بری صورت یہ پیدا ہو گئی ہے کہ اس کے پرتعیش اور دھماچوکڑی والے دور میں بھی اللے تللوں اور کھلے کھاتوں سے محروم رہنے والے دبے دبے باغیوں کی بغاوتی رویہ کی کیفیت میں اضافہ ہو گا۔رہا یہ سوال کہ 14باغی ووٹرز کا ضمیر ووٹ دیتے ہوئے کیوں جاگا؟انہوں نے کھل کر اس کا اظہار کیوں نہیں کیا۔حضور ! آپ کی جماعتوں سے وابستگی نے تو اچھے بھلے کھلے ڈلے اور بیباک ساتھیوں کو بھی بھیگی بلی بنا دیا تھا ۔پھر ان کے ضمیر یکدم جاگنے کی توقع تو کی ہی نہیں جا سکتی ۔کیا شہباز شریف نے بڑے بھیا کی لی گئی سیاسی پوزیشن سے کوئی بہت کھلا اظہار کیا؟لیکن کیا بھی۔ آپ کی پارٹیوں میں وفا کی دبیز چادر اتنی دبیز تھی کہ آپ اب بھی اندازہ نہیں کر سکتے کہ کس کے دل میں بغاوت پل رہی ہے اصل میں تو یہ تحریک عدم اعتماد آپ کی جانب سے ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی پکار کا نتیجہ ہے کہ عید قرباں سے پہلے سنجرانی کی سیاسی قربانی تو بچ گئی لیکن کتنے ہی بکرے قربان ہو گئے۔