counter easy hit

نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر کتنا کتنا جرمانہ عائد کر دیا گیا؟ دھماکہ خیز خبر آگئی

اسلام آباد;احتساب عدالت نے آج ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ سنا دیا ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق احتساب عدالت کے بند کمرے میں جج محمد بشیر نے ملزمان کے وکلا کو روسٹرم پر بُلا کر ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ سنایا۔نواز شریف کو 8 ملین پاؤنڈ کا، اور

مریم نواز کو 2 ملین پاؤنڈ کا جرمانہ عائد کر دیا گیا ہے۔احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 سال قید کی سزا اور مریم نواز کو 7 سال قید کی سزا سنا دی گئی جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔فیصلہ سناتے وقت عدالتی کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، لیکن مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت عدالت کے اندر یا باہر کہیں دکھائی نہیں دی۔ جبکہ میڈیا کو بھی کمرہعدالت سے باہر نکال دیا یا تھا۔ایون فیلد ریفرنس کیس کا فیصلہ گیارہ بجے سنایا جانا تھا جس کے بعد اسے ساڑھے بارہ تک سنانے کا اعلان کیا گیا۔ساڑھے بارہ بجے عدالتی عملے نے بتایا کہ فیصلہ ڈھائی بجے تک موخر کر دیا گیا ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ فیصلہ ڈھائی بجے نماز جمعہ کے بعد سنایا جائے گا۔ جس کے بعد تیسری مرتبہ کیس کا فیصلہ موخر کر دیا گیا اور 3 بجے کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن بعد ازاں کیس کے فیصلے میں چوتھی مرتبہ تاخیر کر دی گئی ۔چوتھی مرتبہ تاخیر کے باوجود بھی احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ ساڑھے تین بجے کی بجائے تقریباً ساڑھے چار بجے سنایا گیا جس نے کئی سوالات کو جنم

دیا۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ تھوڑا اور صبر کر لیں، فیصلے کی کاپیاں کروائی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ فیصلے کی 100 کاپیاں بنا رہے ہیں جس میں وقت لگ رہا ہے ، کاپیاں ہونےکے بعد فیصلے کی بائنڈنگ ہو گی جس کے لیے وقت درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیس کے ہر فریق کے لیے کاپیاں بنوا رہا ہوں۔رجسٹرار نے کہا کہ فیصلے کی چار کاپیاں بنوائی گئی ہیں جو نواز شریف،، مریم نواز ، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور نیب کو دی جائیں گی۔ ذرائع کے مطابق فیصلہ تقریباً دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔عدالتی عملے کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ 3 بجے سنایا جائے گا۔ خیال رہے کہ احتساب عدالت میں شریف خاندان کے وکیل نے فیصلہ 7 دن کے لیے موخر کرنے کی درخواست بھی دی۔وکیل امجد پرویز نے کہا کہ کلثوم نواز کی حالت تشویشناک ہے۔۔نواز شریف کی لندن میں موجودگی ضروری ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق آئندہ 48 گھنٹوں میں بیگم کلثوم نواز کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اب جب کیس فیصلے کے لیے مقرر ہے تو اس مرحلے پر درخواست نہیں دی جا سکتی ۔فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل اس معاملے پر درخواست دی جا سکتی تھی۔

امجد پرویز نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ فیصلے کے وقت ملزم کی موجودگی ضروری ہے۔ احتساب عدالت نے اس کیس کا فیصلہ ایک گھنٹے کے لیے محفوظ کیا تھا جس پر فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ موخر کرنےکی درخواست خارج کر دی۔ عدالت نے کہا کہ جن کی درخواست ہے وہ خود تو عدالت میں موجود ہی نہیں ہیں، نواز شریف کے وکلا بھی کمرہ عدالت میں موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواست کو خارج کر دیا ہے۔فیصلے سے قبل بات کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ سیکشن 14 کے تحت نواز شریف کو 14 سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ احتساب عدالتمیں ایون فیلڈ ریفرنس کیس 9 ماہ اور 20 دن جاری رہا۔نیب نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پانامہ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف،، ان کی صاحبزادی مریم نواز،، داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف 8 ستمبر 2017ء کو عبوری ریفرنس دائر کیا جس میں انہیں ملزم نامزد کیا۔14ستمبر 2017ء کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اس ریفرنس کی پہلی سماعت کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف

کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کوعدالت کے سامنے عدم پیشی پر اشتہاری قرار دیا اور انہیں ریفرنس سے الگ کیا۔ ایک موقع پر مسلسل غیر حاضری پر عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جس کے ایک ماہ بعد یعنی 26 ستمبر کو نواز شریف پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز 9 اکتوبر کو پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئیں۔احتساب عدالت نے نواز شریف کے داماد کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی گرفتاری جاری کیے اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا ،ْ19 اکتوبر 2017 کو مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی، نواز شریف کی غیر موجودگی کے سبب ان کے نمائندے ظافر خان کے ذریعے فرد جرم عائد کی گئی ،ْ3 نومبر کو نوازشریف،،، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر ایک ساتھ عدالت میں پیش ہوئے اور 8 نومبر کو پیشی کے موقع پرنوازشریف پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی ،ْمزید شواہد سامنے آنے پر نیب نے 22 جنوری 2018 کو ضمنی ریفرنس دائر کیا۔ایون فیلڈ ریفرنس میں 18 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے، جن میں پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔ 11 جون کو حتمی دلائل سے ایک روز قبل نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کیس کی پیروی سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ لیکن بعد میں 19 جون کو عدالت میں پیش ہو کر وکیل خواجہ حارث نے اپنا دستبرداری کی درخواست واپس لے لی۔گواہان پر جرح مکمل ہونے اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے پر احتسابعدالت نے کیس کا فیصلہ 3 جولائی کو محفوظ کیا تھا۔ نواز شریف 78 اور مریم نواز 80 مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئیں۔لندن میں ہونے کی وجہ سے آج احتساب عدالت میں نواز شریف اور مریم نواز پیش نہیں ہو سکے جبکہ نواز شریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے نواز شریف،، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی نوٹسز جاری کیے تھے۔ احتساب عدالت کے باہر صحافی نے وکیل سے سوال کیا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا فون نمبر بند ہے جس پر وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ جی ہاں ان کا نمبر آف ہے، کیپٹن صاحب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، ہم کل سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔نجی ٹی وی چینل نے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر مانسہرہ کے علاقہ میں موجود ہیں اور وہاں اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں جس کی وجہ سے آج وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکے۔ دوسری جانب سکیورٹی کو فول پروف بنانے کے لیے عدالت کے باہر ضلعی انتظامیہ نے رینجرز کو طلب کر رکھا تھا۔ سکیورٹی کے لیے 500 رینجرز اہلکار اور 1400 پولیس اہلکار بھی تعینات تھے۔احتساب عدالت جانے والے تمام راستے عام ٹریفک کے لیے بند کردیے گئے اور اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ۔ احتساب عدالت کے باہر سکیورٹی سخت لیکن آج مسلم لیگ ن کے کارکنان بھی غائب تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق آج عدالت کے باہر ماضی میں اس ریفرنس کی سماعت کے موقع پر دیکھی جانے والی گہما گہمی نہیں تھی اور سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد تو موجود تھی لیکن مسلم لیگ ن کے کارکن دکھائی نہیں دئے۔