چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ عوام کا پیسہ کس طرح مشیروں پرلٹایا جارہاہے، صوبائی مشیروں کو وزیروں کی تنخواہیں اورمراعات دیناثابت ہواتوایف آئی آر درج کراسکتے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے مشیر قانون بیرسٹر مرتضیٰ وہاب سے قلمدان کی واپسی کے معاملے کی سماعت کی ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سندھ ہائیکورٹ وزارت قانون کے قلمدان کی واپسی کانوٹیفکیشن جاری کردیا ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مرتضیٰ وہاب کو دوماہ کی 12 لاکھ 80 ہزار تنخواہ دی گئی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ مرتضیٰ وہاب نے دوماہ کی تنخواہ واپس کردی ہے ۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ مولا بخش چانڈیو کے پاس اطلاعات اور سعید غنی کے پاس محکمہ لیبر،اصغر جونیجو کے پاس محکمہ ورکس کا قلمدان ہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ دوروزمیں بتایا جائے ان مشیروں کو کتنی تنخواہیں ، مراعات اور اختیارات دیےگئے،کس طرح مشیروں کو وزیروں کے اختیارات اور تنخواہیں دی گئیں۔اگر ثابت ہوا مشیروں کو وزیروں کی تنخواہیں اور مراعات دی گئیں تو ایف آئی آر درج کراسکتے ہیں۔