حالیہ سائبر کرائم ایکٹ متعارف ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جعلی اور گمراہ کن تحاریرکے خلاف پنجاب حکومت کا کریک ڈائون تاخیر سے ہی سہی لیکن خوش آئند ہے۔سوشل میڈیا پر دو قسم کے جرائم عام طور پر تسلسل سے وقوع پذیر ہورہے ہیں۔اول یہ کہ قوم کی بیٹیوں کی تصاویرسافٹ وئیر کی مدد سے تبدیلی و تحریف کےبعد قابل اعتراض شکل میںفیس بک پر آویزاں کردی جاتی ہیں۔اپنے مقاصد کے حصول کیلئے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد تصاویر کے ساتھ ساتھ ویڈیوز بھی اپ لوڈ کردیتے ہیںجس سے اس بیٹی اور خاندان والوں کیلئے جینا دوبھر ہوجاتاہے۔اب تو ایسے سافٹ ویئر آچکے ہیں جو یہ جانچ لیتے ہیں کہ یہ ویڈیوز اورتصاویر اصلی ہیں یا
قلی۔دوسرا بڑا جرم یہ ہورہا ہے کہ اپنے مکروہ سیاسی عزائم کی تکمیل،عوامی رائے عامہ کو انتشار پر ابھارنے اوراپنے مفادات کے حصول کے لئے سیاسی کوےجھوٹ اور دروغ گوئی پر مبنی موادسوشل میڈیا پر اپنے صفحات بنا کر ان پر پوسٹ کررہے ہیں ۔ایک طرف پنجاب حکومت دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانےاور غربت کے خاتمہ کیلئےترقیاتی کاموں پراربوں روپے خرچ کرنے کے غیر معمولی اقدامات کررہی ہےتو دوسری طرف شیطانی فطرت افرادیہی مواد ٹوئٹر پر بھی اپ لوڈ کرکے معاشرے میںپریشانی اور مایوسی کا کلچر پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔میں خود بھی کچھ عرصہ تک سوشل میڈیا میں دلچسپی لیتی رہی لیکن اب اس پر لگائی جانے والی پوسٹوں پر یقین کرنے سے توبہ کرلی ہے۔ عمومی طور پرسوشل میڈیا پردستیاب آزادی تحریر نے پاکستان کے سماج کو شکست و ریخت سے دوچار کردیا ہے۔ انسانی تعلقات، رویوں میں تیزی سے تبدیلی وقوع پذیر ہورہی ہے جبکہ نئے اذہان کی ذہنی نشوونما خوفناک حد تک تنزلی کی طرف مائل ہے۔لوگ کمپیوٹرز اور موبائل فونوں پر اپنازیادہ تر وقت
گزارنا شروع ہو چکے ہیںجس کے بعد سیاست اور مذہب سے منسلک کرکے خرافات پر مبنی احمقانہ پوسٹس سامنے آرہی ہیں جو لوگوں کو گمراہی کے راستے پر مائل کررہی ہیں۔خواتین بھی اس عفریت کی خوفناکی سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔وہ نہیں جانتیں کہ وہ کن ان دیکھے
دشمنوں میں گھری ہوئی ہیں اور وہ انکا آسان شکار بن سکتی ہیں۔کم پڑھی لکھی سے لیکر اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اور لڑکیوں کی بڑی تعدادسوشل میڈیا کے خوفناک نتائج بھگت رہی ہے۔سوشل میڈیا پر عارضی اور آف لائن تعلقات بننے کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ہم ابھی تک یہ نہیںاحساس کرپائے کہ سوشل میڈیا تازہ ترین خبروں اور نئی معلومات کے حصول کا تیز ترین ذریعہ ہےاگرچہ یہ معلومات مکمل طور پر مصدقہ نہیں ہوسکتی ہیں۔مثال کے طور پر جنوری2015یںپیرس حملوںکے بعد ٹوئٹر،فیس بک اور انسٹاگرام نامی سوشل سائٹس پر اس اندوہناک واقعہ کی اپ ڈیٹس کا سیلاب آگیا لیکن اکثر معلومات درست ثابت نہ ہوئیں۔7.10ملین سے زائد ٹوئٹ کی گئیں کہ 129افراد مارے گئے۔لاکھوں غلط ٹوئٹس کو حکام نے سوشل میڈیاسے ہٹایا۔ سوشل میڈیا پرکینیڈین سکھ کی وائرل ہونے والی سیلفی میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ اس کا تعلق پیرس دھماکوں سے ہے۔ تحقیقات کے بعد منکشف ہوا کہ تصویر جعلی بنائی گئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ سکھ کے ہاتھوں میں قرآن ہے اور اس نے خودکش جیکٹ پہن رکھی ہے۔تصویر جب سامنے آئی تو اس کینیڈین کی زندگی جہنم بن گئی ۔انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنا تزکیہ نفس چاہتا ہےلیکن ذمہ دار سوشل میڈیا اور گٹر پریس میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔حال ہی میںکراچی کے ایک اداکار کو پنجاب حکومت نے صوبے میںاغوا ہونے والے بچوں کے بارے میںغلط معلومات لکھنے اور شیئر کرنے پر لیگل نوٹس بھیجا ہے۔ اپریل 2016میںالیکٹرانک کرائمز بل2015کی منظوری کے بعدبعض تنظیموں نے اس پربے جا تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔ سائبر کرائم ایکٹ نافذ ہونے کے بعد چندناقدین نے خود کوضمیر کا قیدی پکارنا شروع کردیا ۔ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو سوشل میڈیا پراظہاررائے کی آزادی پر ہرگز قدغن نہیں لگانی چاہئے۔ایسے ناقدین نہیں جانتےکہ انتہائی لبرل اور جمہوریت کے چیمپئن ممالک نے بھی لاتعداد سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو انٹرنیٹ جرائم پر بعد ازگرفتاری سزائیں دی ہیں۔مجھے یاد ہے کہ اکتوبر 2015میںایف آئی اے سائبر کرائم ونگ پشاور نے پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو عدلیہ کے خلاف پیغام ٹوئٹر پر لکھنے پر گرفتار کیا۔دنیا بھر سے چند ایک مثالیں یہ ہیں۔ 2012میںنامور سیاستدان کی وفات پرممبئی بندہونےپر سوال اٹھانے کی پاداش میںاسکی تحریر کو قابل اعتراض اور نفرت انگیز قرار دیتے ہوئےمیڈیکل کی طالبہ کو گرفتار کرلیا گیااور تواور اسکی دوست کو بھی یہ پوسٹ پسند کرنے پر حراست میں لےلیا گیا۔2013میںسوشل میڈیا پر برطانوی حکومت کے خلاف افواہیں پھیلانے کے الزام پر چار افراد کو،جنوری 2015میں پیرس حملوںکے بعد دہشت گردی کی حمایت کرنے پر 54لوگوں کو حراست میں لیکرمقدمہ بھی درج کیا گیا۔آزادی رائے کا سب سے بڑا حمایتی امریکہ بھی معاشرے میں بے چینی پھیلانے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو برداشت نہیں کرتا ہے۔بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں23مئی 2016کو پولیس پر تنقید کرنے، صحافیوں کو سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کرنےاورگمراہ کن قابل اعتراض مواد ٹوئٹر پرپوسٹ کرنے پرصحافی کوگرفتار کر لیا گیا۔ 10جولائی 2016کو ریاست لوزیانا میںدو سفید فام پولیس اہلکاروں نے 37سالہ سیاہ فام گولی مار کر قتل کردیا۔اس واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے والے 100 مظاہرین سمیت ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو گرفتار کرلیا گیااس نے پولیس فائرنگ کی ویڈیو پوسٹ کی تھی جس کے بعد مظاہرے شروع ہوئے تھے۔آسٹریلیا میںایک لڑکے نے ٹوئٹ کیا تھا کہ میں اپنے بم کے ساتھ تیار ہوں اور اس بم کو پھاڑنے کا وقت آگیا ہے جس پر اس لڑکے کو گرفتار کرلیا گیا۔برطانوی پولیس نے اسکاٹش باشندے کو فیس بک پر قابل اعتراض جملے تحریر کرنے پر گرفتار کرلیا ۔بحرین میں سوشل میڈیا پرحکومت کو بدنام کرنے اور مظاہرے کرنے کے الزام میںجیل بھیج دیا گیا۔سابق مس ترکی کوصدر طیب ایردوان کے خلاف تنقیدی نظم شیئر کرنےپرگرفتار کرلیا گیا۔سعودی عرب میںخاتون ایکٹوسٹ کوقابل اعتراض ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔چین میں ٹوئٹر پر پابندی ہے ایک شہری کو ٹوئٹر استعمال کرنے اورسوشل آرڈر کو ڈسٹرب کرنے پر عین اس کی شادی کے روز گرفتار کر لیا گیا۔ پاکستان میں بھی مادر پدر آزادی حاصل کرتا ہوا سوشل میڈیا بہت سے جرائم کی پیدائش کا باعث بن رہا ہے۔ان جرائم کی وجہ سےہمارےمعاشرے کی حدود و قیود بری طرح متاثر ہورہی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ انکے سد باب کیلئےنہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ ہر پلیٹ فارم پررائے عامہ ہموار کی جائے اورمجرموں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے تاکہ مثبت معاشرتی نشوونماکو یقینی بنایا جاسکے۔