عید الاضحیٰ پر کانگو وائرس سے لوگوں کی صحت کو سنگین خطرے کا سامنا ہے جو اب تک پاکستان بھر میں کم ازکم 28 جانوں کے ضیاع کا باعث بن چکا ہے، ماہرین نے قربانی کے مذہبی فریضے کے دوران لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے متعدد تجاویز پیش کی ہیں۔
ماہرین کے مطابق کانگو سے تحفظ دینے والا سب سے موثر اقدام جانوروں کی قربانی کے لیے کسی جگہ کو مخصوص کرنا یا مذبح خانے کا استعمال ہے۔
انڈس ہسپتال کے وبائی امراض کی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ثمرین سرفراز کے مطابق ” اگر ہم کانگو وائرس کے کیسز کی روک تھام کے خواہشمند ہیں تو قربانی کو کسی باقاعدہ مذبح خانے یا مخصوص مقامات میں کرنا ہوگا، سعودی عرب میں کانگو کے کیسز بمشکل ہی نظر آتے ہیں حالانکہ وہاں دوران حج متعدد جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے”۔
ان کا کہنا تھا ” ایسا اس لیے ہے کیونکہ جانوروں کی قربانی مخصوص مذبح خانوں میں ہوتی ہے اور ڈھانچوں کو مناسب طریقے سے تلف کیا جاتا ہے”۔
ان کے مطابق حکومت کو جانوروں کی قربانی کے لیے مقامات مخصوص کرنے چاہئے اور جس حد تک ممکن ہوسکے گھروں میں قربانی کی حوصلہ شکنی کرنی چائے۔
انہوں نے کہا ” ایک طے کردہ معیار کے تحت کسی جانورو کو سڑک کنارے فروخت نہیں ہونا چاہئے، جبکہ گھروں یا گلیوں میں قربانی نہیں ہونی چاہئے”۔
ان کے بقول حکومت کو ” جانوروں کے صاف ذبح” کے تصور کو فروغ دینا چاہئے کیونکہ مذبح خانوں کی گندگی جانوروں کے انفیکشنز کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔
انہوں نے کہا ” جب آپ جانوروں کو گاڑیوں میں جاتے ہوئے دیکھتے ہیں جن پر لوگ بھی لٹکے ہوئے ہوتے ہیں، یا انسان اور جانور سڑکوں پر ہجوم کی شکل میں ہوتے ہیں تو کسی نے بھی حفاظتی ملبوسات نہیں پہنے ہوتے، ان حالات میں یہ کسی کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ کانگو کی وباءکو پھیلنے سے روک سکے”۔
لاہور کی ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز یونیورسٹی کے پروفیسر مسعود ربانی نے جانوروں کے ذبح کی چند ٹپس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ الگ تھلگ اور کم استعمال ہونے والے زیادہ سورج کی روشنی والی جگہ کو قربانی کے لیے استعمال کیا جانا چاہئے کیونکہ الٹرا وائلٹ شعاعیں جراثیموں کا فوری خاتمہ کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ” ایک یا خاندان کے کم سے کم افراد کو (اگر بڑا جانور ہو) کو قصائی کی مدد کی ذمہ داری دی جانی چاہئے، کم افراد کو جانور اور گوشت کے کام کا حصہ بننا چاہئے، جبکہ انہیں ڈسپوزایبل ٹوپیاں، دستانے، ماسک، پلاسٹک ایپرن، واٹر پروف جوتے اور حفاظتی کپڑوں کا لازمی استعمال کرنا چہائے، ان کے ناخن صاف اور کٹے ہوئے ہونے چاہئے”۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر ہاتھ یا بازو پر زخم یا خراش ہو تو گوشت کے کام کا حصہ نہیں بننا چاہئے، جانوروں کے ذبح اور گوشت کی کٹائی کے بعد ہاتھوں کو دھونا لازمی ہے۔
ان کا کہنا تھا ” فرش پر ایک بڑی اور موٹی پلاسٹک کی شیٹ پھیلا کر اس پر گوشت رکھیں، بچوں کو اس حصے سے دور رکھا جائے جہاں قربانی ہوئی ہو یا گوشت کو کاٹا گیا ہو”۔
امراض کی روک تھام کے لیے ٹھوس اور سیال کچرے کو جلد از جلد تلف کیا جائے، بڑے اور موٹے پلاسٹک بیگز کو جانور کے کچرے کو بھرنے کے لیے استعمال کیا جائے اور انہیں بعد ازاں حکومت کی طے کردہ جگہوں پر پھینک دیا جائے۔
ان کے بقول ” یا قربانی کو کسی دیہی یا نیم دیہی علاقے کی مٹی والی جگہ پر کیا جائے”۔
اگر قربانی کے 14 روز کے دوران بخار ہوجائے تو فوری طور پر طبی امداد کے لیے رجوع کیا جائے۔