ترکی، ترقی کے بام عروج کو چھوتے براعظم یورپ اور رقبے و آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے بر اعظم ایشیا کو ملانے والا ملک، جس کی عظیم تاریخ اورکارناموں کا سارا جہاں معترف ہے، ایک بار پھر عالمی نقشے پر دن رات ہر کسی کی توجہ کا مرکز ہے۔ ایک زمانہ یورپ کا مرد بیمار کہلانے والا ترکی دیکھتے ہی دیکھتے آج دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے۔ یہ کہانی ہے 14 مارچ 2003ء کی جب سب سے بڑے شہر استنبول کی سڑکوں پر شربت بیچنے والے بچے نے رجب طیب اردوان کی شکل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور پھر اس نے چند ہی سال میں دنیا کو محکوم رکھنے کے لئے بنائے گئے اداروں میں سے ایک آئی ایم ایف کو سارا قرضہ واپس کر کے ٹکاسا جواب دے دیا تھا کہ اب اگر انہیں پیسے کی ضرورت ہو تو وہ انہیں دے سکتے ہیں۔وہی ملک کہ جہاں خواتین کے سر ڈھانپنے تک پر پابندی تھی ،اسی ملک کو اس شخص نے دنیا بھرکے مقہور و مجبور مسلمانوں کے لئے امیدوں کا مرکز بنا دیا ہے۔
ایک شخص، جی ہاں ایک شخص آج ان سارے ظالموں کو چیلنج کر رہا ہے اسی لئے تو ان طاقتوں نے اس کے ملک میں آگ و خون کا کھیل شروع کرا دیا اور مطمئن و پرسکون بیٹھے کردوں کو انہوں نے ایسا بھڑکایا کہ 5ملکوں میں پھیلے اپنے کردستان کے دعویدار صرف اور صرف ترکی میں جنگ چھیڑے ہوئے ہیں اور باقی سب سے ان کی مکمل امن و صلح چل رہی ہے۔تاریخ عالم کی چومکھی و انوکھی جنگ ہے جو ترکی تن تنہا لڑ رہا ہے۔کل تک دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی و خدمت کا اعزازو ریکارڈ پاکستان کے پاس تھا تو اب یہ علم ترکی تھامے ہوئے ہے جہاں 30لاکھ شامی مہاجرین نہ صرف پناہ لئے ہوئے ہیں بلکہ وہاں کی حکومت ان کی اپنے شہریوں جیسی ہی خدمت کرنے میں مصروف ہے۔کہنے کو یورپ کے پاس بہت دولت کے انبار اور ترقی کے بام کو چھوتے آسمان ہیں لیکن سوچ و کردار کی تنگی اس قدر ہے کہ وہ محض چند ہزار لوگوں کو پناہ دے کر نہ صرف اس کا احسان ہمہ وقت جتلا رہے ہیں بلکہ اسے اپنا سب سے بڑا کارنامہ ثابت کرنے پر زور بھی لگا رہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ پھولے سانسوں اعلان کرتے جا رہے ہیں کہ اس کے بعد وہ اپنے ملکوں میں کسی کو قدم نہیں رکھنے دیں گے۔
انہی ملکوں میں ایک جرمنی ہے تو دوسرا ہالینڈ جنہیں ترک صدر نے گزشتہ ہفتے دھول چٹا دی کیونکہ کردوں کو شرارت و دہشت گردی کی راہ پر لگانے والوں میں جرمنی بھی پیش پیش ہے۔دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق رجب طیب اردوان نے کہا کہ ”جرمنی دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے اور دہشت گردوں کی معاونت کر رہا ہے۔” استنبول میں ایک تقریب سے خطاب میں صدر اردوان کا کہنا تھا کہ ”گزشتہ دنوں جس صحافی کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اس کا تعلق جرمنی سے ہے۔وہ جرمن جاسوس ہے اور ضروری ہے کہ اس کے خلاف دہشت گردوں کی اعانت کرنے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔”ترک صدر کے اعلان کے بعد جرمنی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ ترک صدر کا مزید کہنا تھاکہ جرمنی میں کرد باغی لیڈروں کو تو جلسے کرنے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن اگرحکومت کے حامی ریلی نکالنا چاہیں توجرمن حکومت ان پر پابندی عائد کر دیتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہالینڈ میں بھی پیدا ہوئی جہاں ایسی ہی ریلی پر پابندی لگی اور ایک ترک وزیر خاتون کو بھی ہالینڈ نے ملک بدر کیا تو ترک صدر نے انہیں نازی اور اسلام دشمن قرار دیا۔
جب جرمنی سے کوئی بات نہ بنی تو اس نے کچھ یوں بیان دیا کہ ترکی کا غصہ جلد ہی دور ہو جائے گا اور وہ ہوش میں آ جائے گا۔اسلام کے ان دشموں کااصل حال بھی سب کے ساتھ اس وقت کھل کر سامنے آگیا جب اس گرما گرمی میں ترک صدر کے خلاف مغربی ممالک کے کئی رہنماؤں نے رد عمل کا اظہار کیا۔ ڈنمارک کے وزیر اعظم نے صدر اردوان سے اپنی طے شدہ ملاقات ملتوی کردی اور کہا کہ انہوں نے ملاقات کو اس لئے ملتوی کیا ہے کیونکہ اسے ترکی کی جانب سے ہالینڈ پر کی جانے والی تنقید سے علیحدہ نہیں دیکھا جاسکتا۔ ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹا نے ان کے بیان کو ناقابل برداشت قرار دیا ۔ڈینش وزیر اعظم لارس لوکے راسمو سین نے کہا کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ ترکی میں جمہوری اقدار شدید دباؤ اور خطرے میں ہیں۔وہی جمہوریت جسے یہ طاقتیں اپنے طریقے اور اپنے ضابطے سے چلانا چاہتی ہیں لیکن یہاں ناکام ہیں۔انہی ہٹ دھرمیوں پر تر ک صدر نے اب اس یورپ ایک اور کھلا وار کیا او ر کہا کہ اگر وہ انہیں یوں ہی آمر کہتے رہے تو وہ انہیں بھی نازی کہتے رہیں گے۔اسی ترک صدر نے کئی سال پہلے اپنی قوم سے کہا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں تاکہ ان کی آبادی زیادہ ہو۔
اب انہوں نے اپنے بیان کو دہراتے ہوئے البتہ کچھ تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ یورپ میں بسنے والے ترک نژاد مسلمان کم از کم پانچ بچے پیدا کریں تاکہ ان کی آباد ی میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ دنیا میں ترقی اور معیشت کی بہتری کے لئے اہل مغرب نے آبادی کم سے کم کرنے کا جو منصوبہ پہلے اپنے پھر دنیا بھر میں رائج کیا تھا وہ آج ان کے لئے سب بڑی مصیبت اور پائوں کی بڑی زنجیر بن چکا ہے اور یورپ ہی نہیں ساری ترقی یافتہ دنیا میں آبادی صفر کی جانب جا رہی ہے اور دن رات اب یہ مہم چلا رہے ہیں کہ عوام بچے زیادہ پیدا کریں لیکن اب کے ان کی ساری کوششیں بے فائدہ اور ہوا میں تیر ہی ثابت ہو رہیں۔مسلمانوں نے تو پھر بھی کسی حد ہی سہی اپنے دین اور شریعت کا پاس رکھتے ہوئے اس مہم میں رکاوٹ ڈالی جو آج ان کے لئے کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں اور ان کی آبادی کی یہی کثرت ان کے دشمنوں کے لئے پریشانی کا باعث بن چکی ہے۔
یہی واویلا بھارت کی مسلم دشمن ہندو تنظیمیں کرر ہی ہیں تو ایسی ہی باتیں باقی دنیا میں ہو رہی ہیں۔اسلام کا درد دل میں بسائے رجب طیب اردوان سے بے شمار طاقتیں پریشان ہیں لیکن لگتا ہے کہ ان کی یہ پشیمانی کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔آج کا ترکی عروج کی جانب بڑھ رہا ہے تو اس کی معیشت کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1996ء میں ایک ڈالر ، 222 لیرا تھا جب کہ اردوان حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے بعد 2015 میں ایک ڈالر 2.94 لیرا کا تھا۔مختصر سی مدت میں کامیابی کی عظیم منزلیں طے کرنے والے ترکی کیلئے موجودہ حالات سازگار نہیں ہیں، رجب طیب اردوان کو عالمی اور قومی سطح پر مختلف مسائل کا سامناہے، معیشت پر قابو پانے کے ساتھ دہشت گردانہ حملوں کو روکنا اور باغیوں پر قابو پانا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اردوان کا یہ جذبہ قابل رشک اور پوری مسلم قیادت کیلئے نمونہ کی حیثیت رکھتاہے کہ وہ بادِ مخالف سے گھبرائے بغیر ایک مردآہن کی طر ح محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔انتہائی حکمت عملی کے ساتھ حکمرانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، دشمنوں کی چالوں پر مسلسل ان کی نگاہ ہے اور ترکی سمیت پوری ملت اسلامیہ کو ان کا کھویا ہوا وقار واپس دلانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ الجزیرہ چینل کے سروے میں طیب اردوان کو 2016 کی سب سے پسندیدہ شخصیت قرار دیا جانا ان کی مقبولیت کی ایک اور دلیل ہے ۔پوری دنیا کے مسلمان امید بھری نگاہوں سے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔